ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
عرض کیا انا یعنی میں اس پر حضور خفا ہوئے حالانکہ یہ ہوسکتا تھا کہ حضور باہر تشریف لا کر دیکھ لیئے مگر ایسا نہیں ہوا اس وقعہ کو سن کر مجھ کو ریاعت موافقت کا مشورہ دینے والے حضور کے برتاؤ کے متلعق کیا کہیں گے حالانکہ اعداء کے معاملات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کس درجہ کا صبر فرمایا ان مدعیان محبت کی حماقت تو ملا حظہ ہو کر معتقد بھی بنتے ہیں اور میرے مصلحانہ تنبیہ پر اعتراض بھی کرتے ہیں یہ دونوں جمع کیسے ہوگئے البتہ میں اگر شریعت کے خلاف کچھ کرتا ہوں تو اس پر یہ حق ضرور ہے کہ مجھ کو ٹوکیں مطلع کریں مگر تمیز کے ساتھ مہزب طریقہ کے ساتھ نہ کہ اعتراض کے لہجہ میں کیونکہ دعوے اعتقاد کے ساتھ اعتراضات جمع نہیں ہوسکتے - 6 ربیع الثانی 1251 ھ مجلس خاص بوقت صبح یوم چہار شنبہ پر فتن زمانہ ( ملفوظ 338 ) ایک سلسلہ گفتگو مٰن فرمایا کہ یہ زمانہ آج کل بڑا ہی پر فتن زمانہ ہے ترین کا تو نام ہی لوگوں میں نہیں رہا الا ماشاء اللہ بدون تحقیق جو جی میں آتا ہے کہہ ڈالتے ہیں گنگوہ سے جبہ موجود جلال آباد کے متعلق سوالات آئے ہیں وہاں پر جماعتیں ہوگئیں ایک کو اثبات میں غلو ہے ایک کو نفی میں - عموما خود مجتہد اور محقق بننے کو جی چاہتا ہے سدوسرے کے اتباع سے عار آتی ہے میں خدام جبہ کو اپنے شغت سے کبھی نہیں بلاتا مگر گھر والے ایک جائز فرلائش کرتے ہیں میں منع نہیں کرتا نہ میں جلال آباد سے یہاں بلایا - ایک اور صاحب ہیں انہوں نے بلایا تھا میں خود اس درجہ غلو کو پسند نہیں کرتا کہ دور دور سے بلا کر زیارت کا اہتمام کیا جائے دوسرے اگر میں ایسا کروں بھی تو میرا فعل حجت نہیں اگر میں فرضا حد سے آگے بڑھتا ہوں بر کرتا ہوں مجھ سے شرعی حکم معلوم کرو پوچھو اور عمل کرو مگر لوگوں ایک مشغلہ ہاتھ آجاتا ہے اس خط میں ایم مضمون یہ بھی لکھا ہے کہ یہ سنا ہے کہ تم زیارت کے وقت بے ہوش ہو کر گرگئے یہ بھی محض چھوٹ ہے میں نہ گرانہ پڑا غیر محققین کا تو یہ مزاق ہے کہ معدوم کو موجود کر لیتے ہیں اور محققین کا یہ مزاق ہے کہ اگر کسی میں کوئی نقص موجود بھی ہو حسن ظن سے تسویل کر کے اس کو معدوم کردیتے ہیں - چنانچہ ایک مرتبہ صبح کے وقت میں حضرت گنگوہی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت