ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
تو سب قابل مواخزہ کے ہیں اسی لئے جہاں کسی نے طریقہ کے موافق معذرت کی فورا نرم ہوجاتا ہوں اس لئے کہ مجھ کو بھی تو خوف ہے کہ کہیں حق تعالیٰ اسی طرح مجھ سے مواخزہ فرمائیں اور معذرت بھی قبول نہ ہوتو پھر میں ہی کیا جواب دے سکتا ہوں اور مواخزہ کا جو ظاہری کچھ اثر رہتا بھی ہے وہ بھی مخاطب ہی کی مصلحت اور خیر خواہی سے اور اگر تعلعق نہ ہوتا تو اس کو تجویز اور تدبیر کیوں بتاتا اور اصلاح کیو کرتا ہاں یہ ضرور ہے کہ مواخزہ کے وقت لہجہ تیز ہوجاتا ہے سو یہ میری فطری بات ہے مگر آج کل صرف نرمی سے بولنے کو اخلاق سمجھتے ہیں چاہے اس کا حاصل کتنی ہی یزا کی بات ہو مگر ہو نرم ہمارے ضلع کے ایک کلکٹرکی حکایت ہے کہ معتوب کے لئے اردلی کو بہت نرمی اور تہزیب سے حکم دیتا کہ آپکا کان پکڑ کر باہرنکال دو لہجہ نہایت نرمی کا ہوتا تھا سو وہ خلیق مشور تھا - کیا خرافات ہے یہ تو اور بھی زیادہ تکلیف دہ بات ہے کہ بات تو نرم اور سزا سخت ہو مجھ میں اس قسم کے اخلاق مروجہ نہیں نہ مجھ کو یہ پسند سو اگر کسی کو میرا یہ طرز ناپسند ہو وہ آئے میں ایسے ہی موقع پر یہ شعر پڑھا کرتا ہوں ہاں وہ نہیں وفا پعست جاؤ وہ بے وفاسہی جس کو ہوجان ودل عزیز اسکی گکلی میں جائے کیوں کشفیات میں خوض کرنا مضر ہے ( ملفوظ 253 ) ایک سلسلہ گتفگو میں فرمایا کہ صوفیہ کے جو علوم کشفیہ ہیں وہ ان احکام کے سامنے جو بزریعہ احی کے پہنچے ہیں کوئی حقیقت نہیں رکھتے ان احکام کو چھوڑ کر کشفیات میں خوض کرنا نہایت مضر ہے مثلا وحدۃ الوجود ہی کا مسئلہ ہے یا ایسے ہی مسائل میں بلا ضرورت ان کی تقریرات کرنا خصوص عوام کے سامنے سخت مضر ہے اسی کو فرماتے ہیں - ظالم آن قومکیہ چشمیاں دوختند از سخنہا عالمے راسوختند ان کو تو جس حالت ابہام پر ہیں - اہسے ہی رہنے دینا چاہئے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو قول ہے ابھموا ماابھم اللہ تعالی یعنی جس چیز کو خدا نے مہم رکھا ہے تم بھی مہم رکھو بڑی حکمت کی بات ارشاد فرمائی