ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
خلوص سے معمولی الفاظ پیارے معلوم ہوتے ہیں (ملفوظ 11 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بڑے بڑے القاب اور چکنے چیڑے الفاظ میں کیا رکھا ہے خلوص اور محبت ہو تو معمولی الفاظ بھی پیارے ہوجاتے ہیں دیکھ لیجئے اللہ تعالیٰ کا نام صرف سب لیتے ہیں کوئی بھی مخدومنامکر منا نہیں کہتا مکہ معظمہ میں شریف حسین تھے کہ ایک معمولی بدوی آکر اس طرح ہکارتا یا حسین یا حسین اور وہ نہایت خندہ پیشانی سے خوش خوش گفتگو کرتے تھے اگر یہ سادگی محبت سے ہوتو کیا مضائقہ ہے بلکہ اچھا معلوم ہوتا ہے ـ ایک بڑی بی تھیں میری سر پر ہاتھ پھیرا کر دعا دیا کرتی تھیں کہ بچے تو جیتا رہ تیری عمر بڑی ہو چونکہ محبت تھی اور سادگی سے ایسا برتاؤ کرتی تھیں ان کی یہ ساری باتیں پیاری معلوم ہوتی تھیں ایک بار گھر میں سے کہا برادری میں ایک یہ ہی بڑی رہ گئی ہیں جو تم کو پیار کر سکتی ہیں ـ میر ٹھ میں حافظ عبدالکریم رئیس تھے ان کی عادت تھی اکثر بیٹا بیٹا کہاکرتے تھے ایک چمار آیا عمر کا آدمی تھا اس کو بھی بیٹا کہا اس چمار نے کہا کہ تمہارے باپ کی برابر تو میری عمر اور مجھ کو بیٹا کھتے ہو حافظ صاحب بہت متواضع تھے برا نہیں مانا غرض حافظ صاحب محبت سے ایسا کہتے تھے کوئی بھی برا نہ مانتا تھا اصل چیز محبت ہے تعظیم میں کیا رکھا ہے بلکہ زیادہ تعظیم ورٓتکریم تو ایک قسم لے حجاب ہیں یہ محبت کی سادگی تو ہم نے اپنے بزرگوں میں دیکھی بالکل اپنے کومٹائے ہوئے تھے پھر تکلف کہاں رہتا حضرت مولانا قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے والد شیخ اسد علی حقہ بہت پیتے تھے جب ضرورت ہوتی فرماتے کی بیٹا قاسم حقہ بھردے مولانا یہ حالت تھی کہ فورا حکم کی تعمیل فرماتے باوجود اس کے کہ مرید اور شاگرد سب موجود مگر کچھ پرواہ نہیں اگر کوئی کہتا بھی تو فرماتے کہ یہ تمھاراکام نہیں یہ میرا کام ہے ـ اللہ اکبر کیا ٹھکانا ہے اس انکسار اور فنا کا بالکل ہی اپنے مٹادیا تھا ـ مولوی معین الدین صاحب کہتے تھے کہ ایک ولا ئیتی درویش آئے بڑے غصہ میں بھر ہوئے نماز پڑھ کر مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوگئے جب لوگ نماز پڑھ کر نکلنے لگے مولانا کے والد بھی آئے انکا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ تم مولانا سے حقہ بھرواتا ہے آخر باپ تھے کہا کہ جی ہاں بھرواتا ہوں ان درویش نے کہا کہ کبھی باپ ہونکے بھروسہ رہو تم جس وقت مولانا حقہ بھرنے کو کھتے ہو