مبالغہ کو نا پسند کرتے تھے بلکہ قرطبی کے بیان کے مطابق اتنا تراشے کہ کھانے میں تکلیف نہ ہو اور میل جمع نہ ہوپائے، امام مالک کے یہاں اس بارے میں اتنی شدت تھی کہ مبالغہ کے ساتھ مونچھ تراشنے والے کو مستحق سرزنش تصور کرتے اور مونچھ مونڈوانے کو بدعت قرار دیتے (1) ہاں مجاہدین رعب پیدا کرنے کےلیے بڑی مونچھ رکھیں تو بہتر ہے (2) حضرت عمر مونچھ کے دونوں کنارے بڑے رکھتے تھے (3) بہرحال مونچھ رکھیں کو معمولی طور سے تراشنا بہتر ہے یا مبالغہ کے ساتھ تراشنا ؟ اس سلسلہ میں اہل علم کی رائیں مختلف ہیں اور ان کے پاس اپنی رائے کےلیے مناسب بنیادیں بھی موجود ہیں لیکن حدیث کے مجموعی الفاظ سے اسی کی تائید ہوتی ہے کہ معمولی طور پر مونچھیں تراشی جائیں (قص )۔
اور ابن عباس کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ معمولِ مبارک بھی یہی تھا (4) ایک اور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کم سے کم چالیس دنوں میں ایک بار مونچھیں ضرور تراش لی جائیں (5)---------- امام نووی نے مونچھ تراشنے میں مستحب قرار دیا ہے کہ دائیں جانے سے شروع کرے اس لیے آپﷺ ہرکام دائیں سے شروع کرنے کو پسند کرتےتھے (6)
داڑھی:
داڑھی رسول ﷺ کی اہم ترین سنت او رشعائر میں سے ہے۔ موجودہ دور میں بعض اہل علم کا خیال ہے کہ یہ رسول اللہ
-------------------------------------------------
(1) فتح الباری452/10
(2) عالمگیری 557/5
(3) شرح مہذب 288/1
(4)زاد المعاد 62/1 فصل فی ہدیہ فی قص الشارب
(5)ابوداؤد عن انس با فی اخذ الشارب 577/2
(6) شرح مہذب 288/1