کاشت میں بٹائی داری
شریعت میں ایسی نظیریں موجود ہیں کہ ایک شخص کے پاس اسباب و وسائل ہوں اور دوسرے کے پاس صلاحیت ہو اور ان دونوں کے مجموعہ سے جو پیداوار حاصل ہو وہ دونوں میں تقسیم ہو جائے "مضاربت" کا ماحصل یہی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ کاشتکاری میں بھی یہ بات کہ ایک شخص کی زمین ہو اور دوسرے شخص کی طرف سے محنت ہو ، جائز ہے یا نہیں اور اسی زمین کی پیداوار دونوں میں تناسب کے لحاظ سے تقسیم ہو جائے ؟ اس سلسلہ میں روایتیں مختلف ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر کے ساتھ اسی طرح کا معاملہ طے کیا تھا کہ وہ کھیتی کریں اور نصف پیداوار آپ کے حوالہ کریں (۱) ۔ اس سے بٹائی داری کا جواز معلوم ہوتا ہے ۔ دوسری طرف رافع بن خدیج اور بعض دوسرے راویوں کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا (۲) ۔ اس سے ناجائز ہونا معلوم ہوتا ہے۔
لیکن درحقیقت ان دونوں روایتوں میں کوئی تعارض نہیں ۔ اصل میں اس طرح کاشتکاری اور نفع کی دونوں میں تقسیم جائز ہے بشرطیکہ زمینوں کے کسی خاص حصہ کی پیداوار یا متعینہ مقدار فریقین میں سے کوئی اپنے لئے مخصوص نہ کر لے ، اس لئے کہ ممکن ہے کہ زمین کے اسی حصہ میں پیداوار ہو یا اتنی مقدار ہی میں غلہ نکلے تو ایسی صورت میں دوسرا فریق بالکل محروم رہ جائے گا ۔ اس لئے یہ شکل جائز نہیں ۔
اس حدیٹ کی جو تاویل کی گئی ہے ، اس کی تائید خود امام بخاری کی روایت سے ہوتی ہے ۔ امام بخاری نے رافع بن خدیج سے نقل کیا ہے کہ ہم لوگ زمین میں
-----------------------------------------------------------------
(۱) ترمذی عن ابن عمر ابواب الاحکام باب ماجاء فی المزارعۃ ۔
(۲) ترمذی عن رافع بن خدیج ابواب الاحکام باب ماجاء فی المزارعۃ ۔