بھی متعین کر دی ہو، اگر مالکِ سامان کہے کہ تم یہ سامان فروخت کرو اور اس کے بدلے تم کو ایک درہم دیا جائے گا یا ہر سو (100) دینار پر کچھ متعین کر دے تو یہ جائز ہے۔ یہی رائے امام احمد کی بھی ہے۔ ابن تین نے لکھا ہے کہ اگر مدت متعین کر دی جائے کہ اتنی مدت پر تمہیں فروخت کرنا ہے تو ایجنٹ کو دیا جانے والا نفع "اجارہ" ہے۔ اور کوئی مدت متعین نہیں کی تو فقہ کی اصطلاح کے مطابق "جعل" ہے (۱) اور ابو عبد المالک نے لکھا ہے کہ اس کی بنیاد عُرف پر ہے۔ گو اس طرح اجرت متعین کرنے میں ایک درجہ کا ابہام پایا جاتا ہے لیکن لوگون کے تعامل کی وجہ سے اس کو جائز قرار دیا گیا ہے "لکن جوزت لما مضی من عمل الناس علیہ (۲)۔
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ گو امام ابو حنیفہ کے مسلک پر کمشن ایجنٹ کے کاروبار کی بعض صورتیں ایسی ہیں جو جواز کے دائرہ سے باہر ہیں لیکن فی زمانہ اس کی کثرت اور ایک حد تک کاروباری دنیا میں اس کی ضرورت کو ملحوظ رکھتے ہوئے فقہاء مالکیہ کی رائے کو قبول کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔
تالاب میں مچھلیوں کی خرید و فروخت (۳)
ہمارے زمانے میں تالاب میں مچھلی کی خرید و فروخت کا معاملہ کثرت سے رائج ہے اور بسا اوقات بعض معاملات اس میں غیر شرعی بھی ہوتے ہیں اس لئے ضرورت ہے کہ اس کے احکام اچھی طرح سمجھ لئے جائیں۔ کسی چیز کو فروخت کرنے کے لئے دو باتیں ضروری ہیں، اول یہ کہ جو چیز بیچی جا رہی ہے وہ بیچنے والے کی ملکیت ہو، یہ تو ظاہر ہی ہے، دوسرے یہ کہ اس کی حوالگی اور سپردگی ممکن ہو۔ اگر وہ فی الحال
------------------------------------------------------------
(۱) یہ فقہ مالکی کی ایک خصوصی اصطلاح ہے۔
(۲) عمدۃ القاری ۱۳/۱۲۔
(۳) ملخص از "جدید فقہی مسائل، حصہ اول"۔