۴۶۸
جسمانی سرزنش
جسمانی سرزنش کے سلسلہ میں ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کا استعمال آخری طریقِ کار کے طور پر اس وقت کرنا چاہیے جب فہمائش، پند و موعظت اور ڈانٹ ڈپٹ وغیرہ سے کام نہ چل سکے۔ اس وقت نہیں مارنا چاہیے جب آدمی بہت جذباتی ہو۔ غصہ میں ہو یا غیر معتدل حالت میں ہو۔ جیسا کہ حدیث میں اس طرح بیوی کو مارنے کی ممانعت آئی ہے کہ اس کی گردن کی رگیں (مارے غصہ کے) پُھولی ہوئی ہوں (۱)۔ چہرہ اور جسم کے نازک حصوں پر نہیں مارنا چاہیے۔ حدیث میں چہرہ پر مارنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے (۲)۔ اس طرح نہ مارنا چاہیے کہ جسم کا کوئی صحہ ٹوٹ جائے یا بچہ کی صحت متاثر ہو جائے۔ اس ممانعت کا ثبوت وہ حدیث اور اسلامی شریعت کا اصول ہے کہ لا ضرر ولا ضرار، نہ نقصان اٹھاؤ اور نہ پہنچاؤ۔ (۳)۔
بسا اوقات مدرسین و اساتذہ اس معاملہ میں حد سے گُزر جاتے ہیں اور تعذیب کی حد تک بچوں کی سرزنش کرتے ہیں۔ یہ طریقہ نفسیاتی اعتبار سے نہایت نقصان دہ اور مضر ہے۔ اس لئے کہ اس سے طلبہ میں بسا اوقات خود تعلیم ہی سے نفرت کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ نیز وہ سزاؤں کے اس قدر خوگر و عادی ہو جاتے ہیں کہ نہ ان کے اندر پند و موعظت سے کوئی بیداری پیدا ہوتی ہے اور نہ سزاؤں کا خوف باقی رہتا ہے۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ
----------------------------------------------------
(۱) دیلمی عن ام کلثوم رضی اللہ عنہا۔
(۲) ابن جریر عن حجاج مرسلاً، طبرانی عن بہر بن حکیم۔
(۳) مؤطا امام مالک عن عمرو بن یحیٰ المازنی عن ابیہ، باب القضاء فی المرفق۔