فقہ کی اصطلاح میں اجارہ اور کام کرنے والے کو اجیر کہتے ہیں ، مزدور کا مسئلہ چوں کہ اہم ترین مسائل میں سے ہے اس لئے اس پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی جاتی ہے :
مزدوروں کا مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جس کو گزشتہ نصف صدی کے اہم ترین مسائل میں شمار کیا جاسکتا ہے اور یہ فطری بات ہے ، دنیا کی ساری بہار دراصل انہی کے دم سے ہے ، بلند قامت عمارتیں ہوں ، صاف سھتری سڑکیں ہوں یا دیہات کے سبزہ زار کھیت اور بل کھاتی ہوئی نہریں ، سب کو انہی کے خون وپسینہ اور قوت بازو سے غذا ملتی ہے ، یہ بھی عجیب ستم ظریفی ہے کہ معاشی ترقی اور خوشحالی میں سب سے کم حصہ مزدوروں کو ہی ملتا ہے حالاں کہ وہ سب سے زیادہ اس کے حقدار تھے ، یہاں اس بات کی وضاحت کر دینی مناسب ہوگی کہ جب ہم مزدور کا لفظ بولتے ہیں تو اس صرف وہ جفاکش طبقہ مراد نہیں ہوتا جو جسمانی محنتوں اور مشقتوں کے کام کرتا ہے بلکہ وہ ملازمین بھی مراد ہوتے ہیں جو لکھنے پڑھنے یا دوسرے دماغی قسم کے کام کرتے ہیں ۔
اسلام نے دوسرے شعبہ ہائے زندگی کی طرح اس باب میں بھی مفصل اور واضح ہدایات دی ہیں جس میں آجر اور مزدور دونوں ہی کے حقوق کی رعایت ہے اور اعتدال و توازن بھی ہے ۔
مزدوروں کی اہمیت
سب سے پہلے تو اسلام نے مزدوروں کو ایک بلند مقام اور منصب کا حامل قرار دیا اور عام طور پر جو اس طبقہ کو کمتر اور حقیر گردانا جاتا تھا جو اب تک باقی ہے ، کی نفی کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: