میں نفخِ روح سے قبل بھی اسقاط حمل درست نظر نہیں آتا ۔
مانع حمل ادویہ :
عارضی منعِ حمل کی یہ صورت کہ ایسی ادویہ استعمال کی جائیں کہ مرد کا مادۂ منویہ عورت کے جسم کے داخلی حصہ پہنچ جائے لیکن تولید کے لائق باقی نہ رہے ، یہ بھی بلاعذر جائز نہیں ۔ شمس الائمۃ سرخسی حنفی فرماتے ہیں :
ثم الماء فی الرحم مالم یفسد فہو معد للحیاۃ فیجعل کالحی فی ایجاب ذلک ذلک الضمان باتلافہ کما یجعل بیض الصید فی حق الحرم کالصید فی ایجاب الجزاء علیہ بکسرہ (۱) ۔
(مادہ منویہ رحم میں جب تک فاسد نہ ہو اس وقت تک زندگی قبول کرنے کا اہل ہوتاہے لہذا اس کو ہلاک کرنے پر تاوان واجب کئے جانے کا مسئلہ وہ زندہ وجود کی طرح ہے جیسا کہ محرم شکار کا انڈا توڑ دے تو وہ جزا واجب ہونے کے حق میں خود شکار کے درجہ میں ہے )
شیخ احمد علیش مالکی لکھتے ہیں :لا یجوز استعمال دواء لمنع الحمل واذا امسک الرحم المنی فلا یجوز للزوجین ولا لاحدہما ولا للسید التسبب فی اسقاطہ قبل الخلق علی المشہور (۲)
( منع حمل کے لئے ادویہ کا استعمال جائز نہیں اور جب رحم منی کو قبول کرلے تو زوجین یا ان میں سے سے ایک یا آقا کے لئے اعضاء کی تخلیق سے پہلے بھی قول مشہور کے مطابق اسقاط کی تدبیر کرنا جائز نہیں )
مانع حمل کے خارجی ذرائع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) مبسوط ۲۶؍۸۷
(۲) فتح العلی المالکی ۱؍۳۹۹