کرتے ہیں وہیں حدیثِ "عرینہ" جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کے پیشاب پینے کی اجازت دی بلکہ دواءً پینے کا حکم دیا (۱)۔ ان کی رائے کو صراحۃً اور عبارۃً ثابت کرتی ہے۔ لہذا ناپاک و حرام اشیاء مسکر ہوں یا غیر مسکر، ضرورتاً ان کے ذریعہ علاج درست ہے۔
ایسی ادویہ جن میں زہریلے اجزاء ہوں، اگر ان کے استعمال سے ہلاکت کا اندیشہ نہ ہو اور مریض کے لئے اس کا استعمال ناگزیر ہو تو ایسی ادویہ کے استعمال میں بھی کوئی مضائقہ نہیں (۲)، اس لئے کہ ان ادویہ کے استعمال کی ممانعت تھی ہی اس لئے کہ وہ مہلک تھیں، اب جب کہ ان کا استعمال ہی انسانی زندگی کے تحفظ یا اس کی صحت کے بچاؤ کا ذریعہ ہے تو ضروری ہے کہ عین اسی مصلحتِ شرعی کی وجہ سے ان کے استعمال کو جائز رکھا جائے۔
انسانی خون کا چڑھانا
علاج کی چوتھی صورت یہ ہے کہ انسانی اعضاء و اجزاء سے علاج کیا جائے۔ انسانی اعضاء سے علاج کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں، مردہ انسان کے اجزاءسے، زندہ انسان کے اجزاء سے، پھر یہ اجزاء یا تو سیّال ہوں گے یا ٹھوس شکل میں ہوں گے، سیال اجزاء سے مراد دودھ ہے جو پاک ہے، اسی طرح خون ہے جو ناپاک ہے، کتب رقہ میں اس کی صراحت موجود ہے کہ ازراہِ علاج مدتِ رضاعت ختم ہونے کے بعد بھی عورت کے دُودھ سے استفادہ کیا جا سکتا ہے "لا بأس بان یسعط الرجل بلبن المرأۃ و یشربہ للدواء" (۳)۔ دودھ پر قیاس کرتے ہوئے اکثر علماء نے ایک انسان کے جسم میں دوسرے
------------------------------------------------------------
(۱) ترمذی ۱/۲۱، باب فی بول مایٔو کل لحمہ۔
(۲) دیکھئے : المغنی ۱/۴۰۱۔
(۳) عالمگیری ۵/۳۵۵۔