آز اور قتاعت و استغناء سے محرومی نوک زباں ہے ، چھپکلی اور بعض حشرات الارض بیماریوں کا سر چشمہ ہیں۔ بندر کی بے شرمی ، لومڑی کی چال بازی گیدڑ کی بزدلی محتاجِ اظہار نہیں۔ مقام فکر ہے کہ اگر انسان کو ان جانوروں کے خوراک بنانے کی اجازت دیدی جائے تو کیایہی اوصاف اس کے باوجود میں بھی رچ بس نہ جائیں گے؟
اسی لئے اسلا م نے ان دونوں کے درمیان اعتدال کی راہ نکالی ، ایک طرف بہت سے جانوروں کو حلال قراردیا ، دوسری طرف وہ حیوانات جن کا گوشت انسان کی اخلاقی کیفیت طبعی افتاد اور جسمانی صحت کے لئے مضر ہو سکتا تھا ان کو حرام قرار دیا ۔ اب یہ کہ کونسے جانور حرام ہیں اور کونسے حلال ؟ اس سلسلہ میں قآن مجید نے ایک قاعدہ مقرر کردیا کہ’’ طیبات ‘‘ اور پاک مویشی حلال ہیں اور ناپاک و بد خو جانور جن کو قرآن کی زبان میں ’’ خبائث‘‘ کہا گیا ہے ، حرام ہیں، یحل لھم الطیبات و یحرم علیھم الخبائث (الاعراف :۱۵۷) کہ انسانی فطرت سلیمہ جس پاکباز و طیب سمجھے اس کھائے اور جس کو خبیث سمجھے اسے نہ کھائے لیکن ظاہرہے کہ اس فیصلہ کو ہر انسان کے ذوق و مزاج پر منحصر کر دیا جانا نہ ممکن تھا اور نہ مناسب ، چنانچہ شریعت نے اس کو جزوی تفصیلات بھی متعین کردی کہ کن کا شمار طیبات میں ہے اور کن کا خبائث میں؟ --------------- چنانچہ اس کی تفصیل یوں ہے کہ حیوانا ت تین طرح کے ہیں ، دریائی زمینی اور پرندے۔
دریائی جانور
دریائی جانوروں میں امام ابو حنیفہ کے نزدیک صرف مچھلی حلال ہے بقیہ کوئی بھی جانور حلال نہیں ۔ مردار ہو تو حرمت علیکم المیتۃ ‘‘ میں داخل ہے اسلئے