درماندہ اور قدم قدم پر اور ایک طویل مدت کےلئے بے شمار شہاروں اور مددگاروں کا ضرورتمند ہوتا ہے۔ اس ضرورت کی تکمیل کے لیے خدا نے انسانوں کی فطرت میں اپنی اولاد سے محبت اور تعلق کا ایک والہانہ اور بے ساختہ جذبہ رکھ دیا ہے۔ ایسی محبت جس کو الفاظ کا روپ دینا اتنا ہی مشکل ہے جتنا سورج کی تصویر سے شعاعوں کا بکیھرنا۔ انسان کے علاوہ دوسری مخلوقات ایک تو اپنے نقطۂ آغاز ہی سے خود مکتفی ہوتی ہیں، دوسرے ان میں اولاد سے محبت و شیفتگی کے اتنے بے پناہ جذبات نہیں ہوتے بلکہ بعض مخلوقات تو ایسی ہیں جو اپنی اولاد کو خود اپنی غذا بنا لیتی ہیں۔
یہ دراصل قدرت کا ایک لطیف اشارہ ہے جو انسانی بچوں، ان کی تربیت و نشو و نما اور سماج کی ان کی طرف توجہ کی ضرورت اور اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ اسی لئے اسلام نے افزائش نسل ان کی تعلیم و تربیت کو بڑی اہمیت دی ہے اور اس کے لیے ایسا نظام العمل ترتیب دیا ہے جو اس کی پیدائش سے جوانی تک کی پوری زندگی کو حاوی ہے۔
مبارکباد
بچہ کی پیدائش پر سماج کا کیا رد عمل ہونا چاہیے؟ قرآن بتاتا ہے کہ لوگوں کو اس پر مبارکباد دینا اور مسرت کا اظہار کرنا چاہیے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسحاق علیہ السلام کے تولد ہونے کی اطلاع دینے کا قرآن مجید ان الفاظ میں تذکرہ کرتا ہے "ہمارے قاصد (فرشتے) حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس خوشخبری لے کر آئے اور سلام کیا، انہوں نے جواباً سلام کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت ابراہیم کی بیوی سارہ کھڑی تھیں، وہ ہنس پڑیں، ہم نے ان کو