ہیں اور یہ سب رائے اور اجتہاد پر مبنی ہیں ۔ ابن عمر کہتے تھے کہ کم ازکم تیس درہم یا اس سے کمتر درجہ یہ ہے کہ ایک لباس اور آخری درجہ یہ ہے کہ تھوڑا سا خرچ دیدیا جائے یہی رائے حسن بصری اور مالک کی بھی ہے ، حضرت حسن نے اپنی بیوی کو بطور متاع بیس زقاق ( اس زمانے کے پیمانے کانام ) شہد دیا تھا ، قاضی شریح نے اپنی مطلقہ کو بطور متاع پانچسودرہم دیئے تھے ، امام ابوحنیفہ کے استاذ حماد کی رائے تھی کہ عورت کے خاندانی مہر کی نصف رقم دیدی جائے (1) تاہم احناف کے یہاں قول مشہور یہی ہے کہ متاع کی کم ازکم مقدار ایک جوڑا کپڑا ہے (2) متعہ کی زیادہ سے زیادہ کوئی ،مقدار مقرر نہیں ،وہ عورت جس سے مرد لذت اندوز ہوچکا ہو، مہر کے ساتھ ساتھ اس کو بھی ؛ متعہ ؛ دینا مستحب ہے (3) اور یہ بھی قرآن مجید کے اس منشاء کی تکمیل کاذریعہ ہے کہ جب عورت سے جدائی ہو تو اس وقت بھی حسن سلوک کا دامن نہ چھوٹے ، فامساک بمعروف او تسریح باحسان (بقرۃ :229 )
ادائیگی مہر کی اہمیت
مہر کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے ، قرآن نے اس کو مرد فرائض میں شمار کیاہے فاٰتوھن اجورھن فریضۃ ، حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر پورا مہر پیشگی ادا نہ کر سکے تو مہر کا کچھ نہ کچھ حصہ ہم بستری سے پہلے اداکردیا جائے ، حضرت علی کا حضرت فاطمہ سے نکاح ہوا تو آپؐ نے خود سیدنا حضرت علی کو وصیت فرمائی :
---------------------------------------
(1) البحر المحیط 233/2 ، احکام القرآن للجصاص 434/1
(2) تفسیر ماجدی96/1 مطبوعہ تاج کمپنی کراچی
(3) ہدایہ 226/2