اس سے بڑی شدت سے منع فرمایا ہے ، ارشاد ہے : رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں دوزخ میں ہیں ( الراشی و المرتشی کلاہما فی النار ) (۱) رشوت صرف وہی نہیں جو رشوت کے نام پر لی جائے بلکہ وہ رقم بھی رشوت میں داخل ہے جو عام لوگ کسی کے عہدے سے متاثر ہوکر ’’ ہدیہ ‘‘ اور ’’ نذر و نیاز ‘‘ کے نام سے پیش کریں ، رشوت کی یہ وہ قسم ہے جس میں اچھے خاصے دیندار لوگ بھی مبتلا ہیں ، چنانچہ فرمایا جو شخص کسی کے لئے سفارش کرے ، وہ اس کے لئے تحفہ بھیجے اور وہ اس کو قبول کر لے ، اس نے بہت بڑا سود لیا ہے (۲) اور حضرت عمرؓ نے عاملوں کو ہدایا و تحائف بیت المال میں جمع کرنے کا حکم دیا تھا ۔ اسی لئے فقہاء نے قاضی کے لئے فریقین مقدمہ سے ہدیہ قبول کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے ۔
ناجائز ملازمتیں
ایسی چیزوں کی ملازمت اور مزدوری جائز نہیں ہے جو معصیت اور گناہ ہو اس لئے کہ جس طرح گناہ کرنا جائز نہیں ہے اسی طرح گناہ کے لئے سبب اور ذریعہ بننا اوراس میں تعاون بھی ناجائز ہے اور جو جس درجہ کا گناہ ہو اس میں تعاون بھی اس درجہ گناہ ہے ۔ چنانچہ فقہاء لکھتے ہیں :
لایجوز الاستجار علی شیء من الغناء و النوح و المزامیر ۔۔۔۔ و لا اجر لہم فی ذلک (۳)
مزامیر ، نوحہ زنی اور گانے بجانے وغیرہ کے کاموں پر کسی کو اجیر رکھنا درست نہیں ہے اور وہ اجرت کے حقدار نہیں ہوتے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) طبرانی عن ابن عمرو ؓ
(۲) ابو داؤد عن ابی امامہؓ
(۳) عالمگیری ۴؍۴۴۹ ، باب اجارۃ المعاصی