دفاع میں مُعاون کھیل
ایسے ہی وہ کھیل جن سے دفاع اور حفاظت کی قوت پیدا ہوتی ہو، نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہیں۔ اوپر گزر چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر اندازی کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اہل حبش نیزوں سے کھیلتے تھے (۱)، تیر اندازی کے مقابلہ میں تو بعض دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ نفسِ نفیس شرکت فرمائی ہے (۲)۔
اس لیے موجودہ زمانہ کے وہ تمام کھیل جس سے آدمی اپنی حفاظت کے لائق ہو سکے، نہ صرف درست بلکہ مستحسن ہوں گے۔ مثلاً کُشتی کھیلنا، کراٹے، لاٹھی چلانا، مکا بازی وغیرہ۔ فقہاء شافعیہ نے صحیح لکھا ہے کہ تیرنا اور بندوق کا نشانہ کرنا وغیرہ کھیل جائز ہیں (۳)۔
تاہم خیال رہے کہ کھیل کود اور ورزش کا یہ جواز اس وقت ہے جب کہ شریعت کے احکامِ ستر کی پوری پوری رعایت ہو اور لڑکے اورلڑکیوں کا اختلاط نہ ہو۔
شطرنج اور بعض نئے کھیل
شطرنج کے ساتھ اگر جّوا بھی ہو تب تو اس کے ناجائز ہونے پر اتفاق ہے ہی، اگر جّوا نہ ہو تب بھی اکثر فقہاء کے نزدیک گناہ اور حرام ہے (۴)۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کچھ شطرنج کھیلنے والوں پر گزر ہوا تو فرمایا یہ کیسے بُت ہیں جن پر تم جھکے پڑے ہو۔
----------------------------------------------------------------
(۱) بخاری بابُ اللعب بالحراب و نحوھا ۱/۲۰۶۔
(۲) بخاری باب التحریص علی الرمی ۱/۲۰۸۔
(۳) درمختار علیٰ ہامش الرد ۵/۲۵۹۔
(۴) الفقہ الاسلامی و ادلتہ ۳/۵۷۲ نیز دیکھئے الجامع لا حکام القرآن ۶/۲۹۱