موجود ہیں (۱)۔ اسی بنا پر خود احناف کے بھی محقق علماء اس کے مستحب یا مسنون ہونے کے قائل ہیں۔ خود امام طحاوی نے مستحب قرار دیا ہے (۲)۔ یہی رائے مولانا عبد الحی لکھنوی فرنگی محل کی بھی ہے (۳)۔ علامہ کاسانی نے لکھا کہ قربانی کے ساتھ عقیقہ کا حصہ شریک ہو تو درست ہے۔ اس لئے کہ اس سے بھی اللہ تعالیٰ کا تقرب ہی مقصود ہے (۴)۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کو کم از کم مستحب کا درجہ ضرور دیتے تھے۔ رہ گئی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ قربانی واجب ہونے کے بعد عقیقہ واجب نہیں رہا، محض مستحب کا درجہ رکھتا ہے۔
عقیقہ کا جانور
ام کرز کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لڑکے کا عقیقہ دو بکرے سے اور لڑکیوں کا ایک بکرے سے کیا جائے (۵)۔ اسی مضمون کی روایت عبد اللہ بن عمر سے بھی منقول ہے (۶) اور حضرت عائشہ سے بھی (۷)۔ اس کے مقابلہ میں عبد اللہ ابن عباس کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن اور حضرت حسین کا عقیقہ ایک ایک مینڈھے سے کیا ہے (۸)۔ احناف اور مالکیہ اس حدیث
---------------------------------------------------------------------
(۱) دیکھئے ابع داؤد باب فی العقیقہ۔
(۲)
(۳) التعا المجد ۲۸۸۔
(۴) بدائع ۵/۷۲۔
(۵) ابع داؤد باب فی العقیقہ۔
(۶) حوالہ سابق۔
(۷) ترمذی۔
(۸) سبل السلام ۱۴۲۶/۴ باب العقیقہ۔