شیخ رضا مصری نے اس مسئلہ پر شرح وبسط سے کلام کیا ہے اور نقل کیا ہے کہ تونس کے مشہور حنفی عالم شیخ بیرم بھی اس کو جائز قرار دیتے تھے ۔ (۱) مشہور اہل حدیث عالم علامہ شوکانی اس کو جائز قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں ۔
والذی یظہر لی انہ حلال (۲)
ڈاکٹر عبداللہ عبدالرحیم العبادی نے نقل کیا ہے کہ علامہ ابن عابدین شامی نے اس کے حلال ہونے پر ایک مستقل رسالہ تصنیف کیا ہے ۔ (۳)
علماء مالکیہ میں علامہ دسوقی ، علامہ ابوالبرکات احمد دردیر وغیرہ جیسے بلند پایہ علماء نے اس کے حلال ہونے کا فتوی دیا ہے ۔ (۴)
اس گنہ گار کا خیال ہے کہ اس طرح کے نئے مسائل پر فقہاء کی نصوص سے زیادہ شریعت کی نصوص اور شارع کے مقصد نیز احکام کی روح پر نظر رکھنی چاہیے اور شارع کا مقصد بالکل واضح ہے کہ جانور کا خون اچھی طرح بہہ جائے تو حلال ہے اور نہ بہہ پائے اور جسم میں منجمد ہوجائے تو حرام ۔ اس اعتبار سے کوئی شبہ نہیں کہ بندوق کا شکار شریعت کے مقصد کی تکمیل کرتا ہے اس لئے اسے حلال ہی ہونا چاہیے ۔ (۵) واللہ اعلم بالصواب
ذبیحہ اور شکار کی حلت وحرمت کا ایک اہم قاعدہ
شکار اور ذبیحہ کے بارے میں یہ بات خاص طور پر پیش نظر رکھنی چاہیے
----------------------------------
(۱) الذبائح فی الشریعۃ الاسلامیہ ص۱۲۲
(۲) فتح القدیر ۲؍۹
(۳) الذبائح فی الشریعۃ الاسلامیۃ ص ۱۲۳
(۴) حاشیہ الدسوتی علی الشرح الکبیر ۲؍۱۰۳
(۵) یہ اس فقیر کی رائے ہے ، ہندوستان کے عام اور مشاہیر علماء کی رائے اس سے مختلف ہے اس لئے قارئین دوسرے علماء وارباب باب افتاء سے بھی دریافت کرلیں اور صرف میری اس تحریر پر اکتفا نہ کریں۔