ذکر ہے------اس استیذان کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے جا کر سلام کرے پھر اپنا نام لے کے اندر آنے کی اجازت چاہے، چنانچہ آپ نے ایک صحابی کو اسی طرح اجازت لینے کا طریقہ ارشاد فرمایا(1)۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو فرمایا یستاذن ابو موسیٰ (ابوموسیٰ اجازت کا طالب ہے )۔
اجازت لیتے وقت نام کی وضاحت کر دینی چاہیے تاکہ صاحب مکان کو اشتباہ نہ ہو۔ حضرت جابر بن عبداللہ ایک مرتبہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اجازت چاہی۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کون صاحب ہیں؟ انہوں نے جواب دیا " انا " (میں ) آپ ﷺ نے فرمایا انا انا کہنے سے کیا حاصل ؟ اس سے کوئی پہچانا نہیں جاتا (2)۔
اجازت لینے کی صورتیں
استیذان کا اصل مقصد اجازت چاہنا، اپنی آمد کی اطلاع دینا اور دوسروں کی آزادی میں خلل انداز نہ ہونا چاہیے، یہ مقصد جس طریقہ سے بھی حاصل ہو جائے استیذان کیلئے کافی ہو گا، مثلاً " بل " بجا کر اپنانام بتا دینا دروازہ پر دستک دینا، شناختی کارڈ بھیج دینا۔ اس لیے کہ یہ ساری چیزیں اس مقصد کی تکمیل کردیتی ہیں۔ البتہ دستک کی آواز اتنی تیز نہ ہو کہ لوگ ڈر جائیں، چنانچہ تفسیر قرطبی میں نقل کیا ہے کہ صحابہ حضور ﷺ کے دروازے پر ناخنوں سے دستک دیتے تھے۔
--------------------------------------
(1) ابو داؤد، باب فی الاستیذان
(2) ترمذی، باب ماجاء فی التسلیم قبل الاستیذان۔