اسبابِ نزاع کا سدِّ باب
اسی طرح خرید و فروخت یا ایسی تمام صورتیں جو مستقبل میں جھگڑے اور نزاع کا سبب بن سکتے ہوں، شریعت نے اس کو روکدیا ہے، اسی وجہ سےایسی چیز جو آدمی کے قابو میں نہ ہو، قبضہ میں نہ ہو یا معاملہ کے وقت موجود نہ ہو، کو بیچنے سے منع فرما دیا (۱)، کیوں کہ کہ چیز مستقبل میں فریقین کے درمیان اختلاف اور نزاع کا باعث بن سکتی تھی، اسی طرح ضروری ہے کہ سامان اور قیمت اچھی طرح متعین ہو جائے (۲)۔ اگر سامان ادھار ہو تب تو ضروری ہے کہ اس سامان کی جنس، اس کے اوصاف، مقام ادائیگی اور مدت وغیرہ تمام متعلقات پوری طرح متعین اور مشخص کر دیئے جائیں (۳)۔ اسی طرح سامان فروخت سے غیر متعین اور مبہم اشتِثناء کی اجازت نہیں دی گئی (۴)۔ اگر مختلف قسم کے سکوں کا یکساں رواج ہے تو قیمت میں سکوں کی نوعیت کا متعین کرنا ضروری سمجھا گیا (۵)۔ معاملۂ خرید و فروخت اس وقت تک قطعی اور مکمل نہیں سمجھا جاتا جب تک کہ خریدار اس کو دیکھ نہ لے۔ اسی کو فقہ کی اصطلاح میں "خیارِ رویت" کہتےہیں۔ معاملہ کے نفع و نقصان کو اچھی طرح پرکھ لینے کے لئے تین دنوں کی خصوصی مہلت دی گئی جو فریقین میں سے ہر ایک دوسرے سے حاصل کر سکتا ہے۔ اس کو فقہ کی اصطلاح میں "خیارِ شرط" کہتے ہیں۔ یہ اور اس طرح کے بہت
------------------------------------------------------------------
(۱) ترمذی کتاب البیوع، باب ماجاء فی کراہیۃ بیع مالا لیس عندہ۔
(۲) دیکھئے مسلم ج:۲ کتاب البیوع، باب تحریم بیع صبرۃ التمر الجہولۃ القدر بتمر۔
(۳) مسل ج : ۲، ص : ۳۱، باب السلم۔ ہدایہ ج ۲، کتاب البیوع، باب السلم۔
(۴) البحر، کتاب البیوع۔ ھدایہ ۱۱/۳۔
(۵) الہندیہ ۱۲۲/۳۔