کی وجہ سے موت واقع ہو جائے اس کا کھانا جائز نہیں، عدی بن حاتم کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس کو تیر کی نوک کے بجائے پھل کی چوٹ لگے اور موت واقع ہو جائے، اس نہ کھاؤ "ما اصاب بعرضہ فلا تأکل" (۱)، چنانچہ اگر کسی شخص نے بھاری پتھر سے مارا اور موت واقع ہو گئی تو اس کا کھانا جائز نہ ہو گا۔ دھار دار ہلکا پتھر ہو تو جائز ہو گا (۲)۔ علامہ ابن نجیم نے اس سلسلہ میں بڑا جامع اصول متعین کیا ہے اور وہ یہ کہ جانور کی موت اگر زخم کی وجہ سے ہوئی ہے تو وہ حلال ہو گا، بوجھ اور چوٹ کی وجہ سے ہوئی ہے یا ایسا ہونے کا شک ہے، تب بھی احتیاطاً شکار حرام ہی ہو گا۔ جانور کو ایسا زخم آیا کہ خون نکل پڑا تو پھر بالاتفاق جانور حلال ہو گا اور اگر خون بالکل نہ نکل پایا تو اس میں اختلاف ہے لیکن راجح قول یہی ہے کہ اس کا کھانا بھی حرام ہی ہو گا (۳)۔
شکاری جانور
ذی روح آلۂ صید سے مراد وہ جانور ہے جن کو شکار کے لئے استعمال کیا جائے، یہ چوپایہ بھی ہو سکتے ہیں، جیسے کُتا، اور پرندہ بھی ہو سکتا ہے جیسے باز، شاہین وغیرہ۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے : ومَا عَلمتُم من الجَوارح مُکلبین (مائدہ-۴)
اور جن شکاری جانوروں کو تم تعلیم دو اور ان کو چھوڑو بھی۔ یہاں "جَوارح" سے مراد ہر وہ جانور ہے جو دانت یا پنجے سے شکار
-------------------------------------------------------------
(۱) بخاری ۲ِ823 باب اصاب المعراض بعرضہ۔
(۲) بحر ۸/۲۲۹۔
(۳) حوالۂ سابق۔