احباب اور اعزّہ و اقرباء بارات میں شرکت کو اپنا حق جانتے ہیں، یہ تمام مزاج شریعت کے قطعاً مغائر، ناپسندیدہ اور غلط ہے، ہاں اتنا ضرور ہے کہ گواہان نکاح کے علاوہ کچھ صالحین اور نیگ لوگوں کو جمع کر لینا آدابِ نکاح میں سے ہے (۱)۔
متعہ
نکاح کے اس شریفانہ طریقہ کے علاوہ اور کوئی صورت اسلام نے روا نہیں رکھی، اس کے سوا جتنی صورتیں تھیں ان میں سے کوئی بھی بے حیائی سے خالی نہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ اسلام نے ابتداء زمانہ جاہلیت کے ایک اور طریقہ نکاح نکاحِ متعہ کو جائز رکھا تھا جس میں ایک یا چند دن کے لیے باہم مقررہ مہر پر نکاح کیا جاتا تھا۔ لیکن بعد کو چل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بھی منع فرما دیا۔ ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے اب قیامت تک کے لیے متعہ کو حرام قرار دیا ہے (۲)۔ سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی شدت سے متعہ کی حرمت کے قائل تھے اور اس سلسلہ میں انہوں نے عبد اللہ بن عباس کی فہمائش بھی کی تھی (۳)۔ عبد اللہ بن عباس کی طرف بعض لوگوں نے متعہ کے جواز کی نسبت کی ہے حالانکہ وہ بھی ابتداءً اضطرار کی حالت میں نکاحِ متعہ کے جواز کے قائل تھے۔ ایسے اضطرار میں کہ جس میں انسان کے لئے سور تک کھانا جائز ہو جاتا ہے (۴)۔ لیکن بعد میں انہوں
---------------------------------------------------------
(۱) احیاء علوم الدین ۲/۳۶۔
(۲) مسلم عن صبرۃ الجہنی ۱/۴۵۱۔
(۳) مجمع الزوائد ۴/۲۶۵، باب نکاح المتعہ۔
(۴) حوالۂ سابق بحوالۂ طبرانی عن سعید بن جبیر۔