۸۰
اور دین کی بے رغبتی کے یکسر مغائر سمجھ رکھا تھا، ایران اور ہندوستانی مذاہب میں تو اس تصور کی بہتات ہے ہی، خود عیسائیت نے جس دور میں رہبانیت کا پیرہن پہنا اس میں بھی ٹھیک یہی کیفیت پیدا ہوئی، انہوں نے بال کی تراش و خراش، چہرے کے خد و خال کی اصلاح، غسل اور صفائی ستھرائی، اچھے کپڑوں کا استعمال ان سب کو شجر ممنوعہ جانا ------------ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جو دینِ فطرت کے داعی تھے اور جن کی تعلیمات نے ایک طرف خدا طلبی کا ذوق پیدا کیا اور دوسری طرف یہ بھی بتایا کہ یہ کائناتِ رنگ و بُو خدا نے انسان ہی کی خدمت کے لئے پیدا کی ہے، نے وضع قطع، صفائی ستھرائی، لباس و پوشاک اور طور و طریق میں ہر جگہ اس دونوں تصورات کو دوش بدوش جگہ دی ہے، نہ انسان کے نفس کو آزاد چھوڑا کہ وہ اپنی مرضی اور خواہش کا غلام بنے اور نہ ایسی قدغنیں عائد کیں جو انسانی فطرت اور جبلت کے خلاف ہوں، قارئین آئندہ سطور میں اس کی عملی تصویر دیکھ سکیں گے۔
سَر کے بال
اس کا آغاز ہم سر کے بال سے کرتے ہیں۔ سر کے بال خدا کی ایک نعمت ہے جو ایک طرف گرمی اور سردی سے اس کی حفاظت کرتی ہے دوسری طرف اس کے سراپا کو تجمل و خوبصورتی اور ایک خاص قسم کی جاذبیت اور کشش عطا کرتی ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ عام حالات میں بال رکھے، کبھی بتقاضاء صحت اور بہ تفاوت مذاق و مزاج بال کی کثرت سے گرانی کا احساس بھی ہوتا ہے، اسلام نے دونوں کی رعایت کی، بال مونڈانے کی بھی اجازت دی اور بال رکھنے کو بھی پسند کیا، خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثر اوقات بال رکھےہیں لیکن زندگی