وہ شکار حلال ہو گا، چنانچہ علی ابن عباس اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہم سے مَروی ہے کہ اگر شاہین شکار میں سے کھا لے تو کھا لو اور کتا کھا لے تو نہ کھاؤ۔ "اذا اکل الصقر فکل و ان اکل الکلب فلا تأکل (۱)۔
بندوق کا شکار
بندوق کے شکار کو عام طور پر فقہاء حرام قرار دیتے ہیں اور اسطرح کی جزئیات فقہاء متقدمین و متاخرین کی کتابوں میں موجود ہیں، لیکن فقہاء کی ان تحریرات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں مٹی کے معمولی ڈھیلے بندوق کے ذریعہ پھینکے جاتے تھے، اس لئے فقہاء کی یہ رائے اپنی جگہ درست تھی۔
موجودہ زمانہ میں جو بارودی گولیاں تیار ہوئی ہیں وہ کسی دھار دار سے بھی بہتر طریقہ پر جسم کے خون کو بہا دیتی ہیں اور پارہ پارہ کر دیتی ہیں اور شریعت کا اصل مقصود یہی ہے کہ خون اچھی طرح بہہ جائے، اس لئے خیال ہوتا ہے کہ بندوق کی موجودہ وضع آلۂ شکار کے لئے شریعت کی مطلوبہ شرائط کو پورا کرتی ہے۔
چنانچہ علامہ صنعانی نے بھی اس کے حلال ہونے کا فتویٰ دیا ہے :
و اما البنادق المعروفۃ الاٰن فانھا ترمٰی بالرصا من فیخرج و تدمیرتہ النار البارود کالنیل فیقتل بحدہ لا بصدمہ فالظاھر حل ما قتلہ (۲)۔
وہ بندوقیں جو آجکل مروج ہیں، چھروں کو پھینکتی ہیں، چھرے نکلتے ہیں اور بارود کی طاقت ان چھروں کو تیر کی طرح بنا دیتی ہے، چنانچہ وہ اپنی دھار سے شکار کو قتل کرتی ہے نہ کہ چوٹ سے، لہذا بظاہر اسکے مقتول کو حلال ہونا چاہیے۔
----------------------------------------------------------
(۱) بدائع ۵/۵۵، المغنی ۹/۲۹۷۔
(۲) سُبل السَّلام ۴/۱۸۵۔