بالکل خلاف فطرت ہو گی،اسی لئے شریعت نے اس سلسلہ میں کوئی تحدید نہیں کی ہے اور اس کو ذوق و مزاج پر رکھا ہے۔چنانچہ فقہاء لکھتے ہیں کہ تفکھا مختلف قسم کے میوہ جات کے کھانے میں قباحت نہیں کہ یہ بھی"کلوامن طیبات ما رزقناکم "میں داخل ہے (1)اسی طرح لذیذ غذاؤں اور فالودہ کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ولا بأس باکل الفالوذج و انواع الاطعمۃ الشھیۃ ۔ (1)
ہاں یہ ضرور ہے کہ شریعت بحیثیت مجموعی غذا میں سادگی کو پسند کرتی ہے اور مسرفانہ تکلفات اور تفاخر آمیز جذبات و خواہشات کو پسند نہیں کرتی ،پیغمبر اسلام ﷺكے بارے ميں مروي ہے كه جَو كے آٹے كي روٹي اس طرح پكائي جاتي كہ پیسنے کے بعد چھانا بھی نہ جاتا بلکہ محض پھونکنے پر اکتفاء کیا جاتا جو چھلکا نکل جاتا نکل جاتا جو رہ جاتا رہ جاتا (3) سرکہ کے بارے میں آپﷺنے فرمایا کہ یہ بہترین سالن ہے نعم الادام الخل(4)تلچھٹ اور کھرچن کو مزے لیکر تناول فرماتے (5)اس طرح کی اور روایات ہیں جو سریر آرائے عرب و عجم بلکہ تاجدار دنیا و عقبیٰ کی کمال بندگی اور غایت سادگی کا مظہر ہے ۔صلی اللہ علیہ وسلم ۔
ہاتھ دھونا اور دھلانا
اسلام جہاں انسانیت کو آخرت کی سعادت سے بہرا مند کرتا ہے وہیں دنیا کے معاملات اور مقتضیات و عادت میں بھی تہذیب و شائستگی سکھاتا ہے۔
-----------------------------------------------
(1)مجمع الانہر 525/2
(2)ہندیہ 341/5
(3)شمائل ترمذی عن سہل ابن سعد ۔باب صفۃ خبز رسول اللہ ﷺ ص:9
(4)شمائل ترمذی عن عائشہ ص:1
(5)شمائل ترمذی عن انس بن مالک ص :12۔