کی جگہ ہے، یہاں خرید و فروخت میں اندیشہ ہے کہ دوسروں کی نماز اور عبادت میں خلل نہ پیدا ہو جائے۔ اس لئے مسجدوں میں خرید و فروخت کو روکا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کسی کو مسجد میں فروخت کرتے یا خرید کرتے ہوئے دیکھو تو کہدو کہ خدا تمہاری تجارت کو نفع سے محروم کر دے "لا اربع اللہ تجارتک" (۱)۔
ایفاءِ عہد اور دوسرے فریق کی ریایت
تمام معاملات کی طرح اسلام کا تصور یہ ہے کہ خرید و فروخت اور تجارت کے معامہ میں بھی ایثار، نرمی، دوسروں کو ترجیح، دیانت و ایمانداری، صدق و راستی، وعدہ کی پابندی اور ایفاءِ عہد کی ڈگر پر انسان قائم رہے۔
سوید بن قیس سے مروی ہے کہ میں اور ایک صاحب کپڑا فروخت کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ پاجامہ خرید کیا، میرے پاس ایک شخص تھا جو قیمت تولنے اور وزن کرنے پر مامور تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیمت ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ جھکا کر تولو، "زِن و ارجع" (۲)، یعنی وزن میں کچھ زیادہ تو ہو کمی نہ ہو۔ ناپ تول کے پیمانے والوں سے فرمایا کہ تم لوگ دو (2) ایسی چیز کے ذمہ دار بنائے گئے ہو جس میں اس سے پہلے کی امتیں ہلاک ہو چکی ہیں (۳)۔ کسی کے یہاں قیمت باقی ہو اور اسے مہلت دی جائے یا معاف کر دیا جائے تو ارشادِ خداوندی ہے کہ قیامت کے دن اسے عرشِ باری کا سایہ حاصل ہو گا (۴)۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ایک شخص کے پاس
---------------------------------------------------------------
(۱) ترمذی، کتاب البیوع، باب النہی عن البیع فی المساجد۔
(۲) ابو داؤد، کتاب البیوع، باب الرحجان فی الوزن۔
(۳) ترمذی، کتاب البیوع، باب ماجاء فی المکیال والمیزان۔
(۴) ترمذی، کتاب البیوع، باب ماجاء فی انزار المعسر والرفق بہ۔