انسان کا خون چڑھانے کی اجازت دی ہے، دودھ اور خون میں یہ امر قدرِ مشترک ہے کہ یہ دونوں انسانی جسم سے اخراج کے بعد دوبارہ بہت جلد اپنی کمی پوری کر لیتے ہیں۔
مُردہ کے اعضاء سے استفادہ
رہ گئی دوسرے ٹھوس اعضاء کی پیوند کاری تو فقہی نظائر سے معلوم ہوتا ہے کہ مردہ کے اعضاء سے پیوند کاری کو تو جائز ہونا ہی چاہیے۔ اس لئے کہ شوافع، بعض احناف، فقہاء مالکیہ میں ابن عربی اور حنابلہ میں ابو الخطاب نے مضطر شخص کو مُردہ کھانے کی اجازت دی ہے :۔ "قال الشافعی و بعض الحنفیۃ یباح ہ ھو اولیٰ لان حرمۃ الحی اعظم و اختار ابو الخطاب ان لہ اکلہ" (۱)، یہی بات امام قرطبی نے لکھی ہے (۲) اور ابن عربی کی رائے ان الفاظ میں نقل کی ہے :۔ "المّحیح عندی ان لا یاکل الٰادمی الا اذا تحقق ان ذٰلک ینجیہ و یحییہ" (۳)۔
زندہ انسانوں کے اعضاء کے استعمال کو عام طور پر فقہاء نے منع کیا ہے، یہ جزئیہ اکثر کتبِ فقہ میں موجود ہے کہ مکرہ (مجبور) کو کوئی شخص پیشکش کرے کہ تم مکرِہ (مجبور کرنے والے) کے منشاء کے مطابق مجھے قتل کر دو، یا میرے جسم میں سے کاٹ کھاؤ تو مجبور کے لئے اس کو قتل کرنا یا اس کے کسی حصہ کو قطع کرنا جائز نہیں (۴)۔ بلکہ بعض فقہاء نے مضطر کو اس بات سے بھی منع کیا ہے کہ خود اپنے جسم کا کوئی حصہ کاٹ کر کھا جائے (۵) لیکن غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ممانعت اس لئے تھی
--------------------------------------------------------
(۱) المغنی ۹/۳۳۵۔
(۲) الجامع لاحکام القرآن ۲/۲۲۹۔
(۳) حوالہ سابق۔
(۴) بدائع الصنائع ۷/۱۷۷۔
(۵) قاضی خاں علی الہندیہ /۴۰۴۔