اعضاء انسانی کی خرید و فروخت
جہاں تک اعضاء کے خرید و فروخت کی بات ہے تو شریعت نے بعض مواقع پر انسانی وجود اور انسانی اعضاء کو متقوم (قابلِ قیمت) مانا ہے اور یہ اس وقت ہے جب کوئی انسان ہلاک کر دیا جائے یا اس کا کوئی عضو تلف کر دیا جائے۔ اس کو اصطلاحِ شرع میں دیت کہتے ہیں۔ اس پر بھی اتفاق ہے کہ آزاد انسان کے پورے وجود کی خرید و فروخت نہیں ہو سکتی، انسانی جسم کے مختلف اجزاء بال اور دودھ یہی دو چیزیں تھیں، جن سے گذشتہ زمانہ میں انتفاع کیا جاتا تھا، بال جس کا استعمال عموماً آرائش و زیبائش کے لئے کیا جاتا تھا۔
فقہاء نے اس کی خرید و فروخت کو بھی منع کیا ہے اور وجہ یہ قرار دی ہے کہ یہ انسانی حرمت و کرامت کے مغائر ہے "و شعر الانسان و الانتفاع بہ ای لم یجز بیعہ والانتفاع بہ لان الاٰدمی مکرم غیر مبتذل فلا یجوز ان یکون الشییٔ من اجزاءہ مھانا مبتذلاً" (۱)۔ علامہ شامی رحمۃ اللہ نے بالوں کی طرح انسانی ناخنوں کی خرید و فروخت کو بھی منع کیا ہے "وکذلک بیع کل ما انفصل عن الاٰدمی کشعر و ظفر لانہ جزء الاٰدمی و لذا وجب و فنہ" (۲)، لیکن دودھ کی خرید و فروخت میں فقہاء کے اندر اختلاف ہے۔ احناف تکریم انسانیت کا پاس کرتے ہوئے منع کرتے ہیں "لم یجز بیع لبن المرأۃ لانہ جزء الاٰدمی و ھو بجمیع اجزاء مکرم عن الا بتذال بالبیع" (۳)۔ جب کہ امام شافعی رحمۃ اللہ اس کو جائز قرار دیتے ہیں۔ سرخی کا بیان ہے :
-------------------------------------------------------
(۱) البحر الرائق ۶/۸، نیز ملاحظہ ہو ہندیہ ۳ِ۱۱۴۔
(۲) رد المختار ۵/۲۴۶۔
(۳) البحر الرائق ۶/۸۱، نیز عالمگیری ۳/۱۱۴۔