نفخ رُوح کے بعد اسقاط
اسقاطِ حمل کے مسئلہ پر غور کرنے کے لئے ہمیں اس کے دو مرحلوں پر غور کرنا چاہیے، ایک صورت یہ ہے کہ حمل میں جان پیدا ہو چی ہے۔ حدیث کے مطابق اسِتقرار حمل کے چار ماہ یعنی ۱۲۰ دن بعد روح پیدا ہوتی ہے۔ غالباً "علم الجنین" کے جدید ماہرین بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ روح پیدا ہونے کے بعد اسقاطِ حمل بالاجماع حرام ہے، احمد علیش فرماتے ہیں "والتسبب فی اسقاطہ بعد نفخ الروح فیہ محرم اجماعاً و ھو من قتل النفس۔" (۱)۔
اور فتاویٰ شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ میں ہے :
اسقاط الحمل حرام باجماع المسلمین و ھو الوأد الذی قال تعالیٰ فیہ وَاِذَ المُوؤدَۃُ سُئِلَت بِاَیِّ ذَنُبِِِ قُتِلَت" (۲)۔ البتہ اگر بچہ بطنِ مادر میں زندہ ہو اور اس کے اسقاط کے بغیر ماں کی زندگی بچانا ممکن نہ ہو تو اس وقت اسقاط کی اجازت ہونی چاہیے، اس لئے کہ ان دو ضرر میں سے ماں کی موت بڑا ضرر ہے اور بچہ کی موت کم تر ضرر۔ نیز ماں کا زندہ وجود مشاہد و معائن ہے اور بچہ کا مظنون جیسا کہ فقہاء نے استحساناً ان مسلمانوں کو قتل کرنے کی اجازت دی ہے جسے کفار اپنے لشکر کے آگے ڈھال بنائے رہیں کہ مملکتِ اسلامیہ کا اہل اسلام کے ہاتھ سے نکل جانا چند مسلمانوں کی موت کے مقابلہ بڑا ضرر ہے۔
یہاں ان عبارتوں سے شبہ ہو سکتا ہے جن میں ایک شخص کی جان لے کر دوسرے کی جان بچانے کو فقہاء نے منع کیا ہے۔ مثلاً ابن نجیم کی یہ عبارت کہ لاِنّ
------------------------------------------------------------
(۱) فتح العلی المالکی ۱/۳۹۹۔
(۲) فتاویٰ ابن تیمیہ ۴/۲۱۷۔