ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
علماء اپنے وقت میں اجتہاد کا دعوٰٰی کرتے تو چل جاتا اور وہ اس کو نباہ بھی دیتے ۔ پھر فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب بالکل سادہ رہتے تھے نہ عمامہ نہ چوغانہ عبانہ قبا موٹے موٹے دانوں کی تسبیح کچھ نہ تھا ۔ (ملفوظ 78) حضرت حاجی صاحب کی عام مقبولیت : فرمایا کہ ایک صوفی صاحب کہتے تھے کہ ہمارے پاس تو حضرت حاجی صاحب کے کامل ہونے کہ دلیل ہے کہ ان کی طرف علماء کثرت سے رجوع ہیں اور زیادہ تر علماء کا فرقہ ہی صوفیہ کا مخالف ہوتا ہے جب علماء متعقد ہیں تو پھر کون مخالف ہوگا پھر حضرت والا نے فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب کی عام مقبولیت تھی بدعتی لوگ تو حضرت کو وہابی نہ سمجھتے تھے اور غیرملقد بدعتی نہ سمجھتے تھے حضرت حاجی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہرشخص مجھے اپنے رنگ میں سمجھتا ہے اور میں کسی کے رنگ میں نہیں ہوں میری مثال پانی کی سی ہے کہ جس رنگ کی بوتل میں بھر دیا اسی رنگ کا معلوم ہونے لگتا ہے ۔ (ملفوظ 79) حضرت حاجی صاحب کی فن تصوف کی خدمت : فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب نے تصوف کی حقیقت صاف صاف ظاہر فرمادی عرصہ سے اس فن کی بہت خراب حالت ہور ہی تھی ۔ لوگ گڑبڑ میں پڑتے تھے ۔ (ملفوظ 80) حضرت حاجی صاحب ابتدائی حالات میں سید احمد شہید کے مشابھت: فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب کی شاہ فضل الرحمن صاحب سے سلسلہ طریقت کے اعتبار سے کچھ قرابت بھی تھی بعض مرتبہ شاہ صاحب فرماتے کہ بھائی کوئی حاجی امداد اللہ صاحب کا مرید ہے ایک مرتبہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب کے چھوٹے صاحبزادے محمد ہاشم مرحوم نے حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ شاہ فضل الرحمن صاحب جو یہ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس ہمارے بھتیجے حاجی امداد اللہ اکثر آتے ہیں تو کبھی چچا بھی بھتیجے کے پاس آتے ہیں یاروز بھتیجے ہی چچا کے پاس جاتے ہیں اس پر حضرت حاجی صاحب نے فرمایا کہ بھائی تم یوں ہی سمجھو پھر فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب کی عمر جب کہ 25 یا 30 سال کی تھی تب ہی سے دہلی کے شہزادے و بیگمات وغیرہ آپ کی معتقد تھے گویا کہ مثل شاہ سید احمد صاحب کے ابتداء ہی سے آپ کی ایسی حالت تھی ۔