ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
پھر فرمایا کہ ایک مرتبہ مولانا محمد یعقوب صاحب مولوی یاسین سے کہنے لگے عام مجمع میں جہاں ان کے مرید اور شاگرد بھی موجود تھے کہ مجھ میں ذراسی کسر رہ گئی ہے اور تمہارے پیر یعنی مولانا رشید احمد صاحب اسے پورا کرسکتے ہیں مگر وہ پتہ ہی نہیں دیتے بخل کرتے ہیں ۔ ( ملفوظ 306 ) حضرت گنگوہی کی تواضع : فرمایا کہ ایک مرتبہ میں نے مولانا گنگوہی کی خدمت میں اپنے کچھ حالات لکھے ۔ مولانا نے جواب میں تحریر فرمایا کہ بھائی ہمیں تو اب تک یہ حالات نصیب نہیں ہوئے ۔ کیا ٹھکانہ ہے تواضع کا پھر فرمایا کہ مولانا گنگوھی نے ایک جگہ قسم کھائی ہے کہ مجھ میں کوئی کمال نہیں بعض مخلص لوگوں کو اس سے شک ہوگیا کہ مولانا میں کمال کا ہونا تو ظاہر ہے تو اس قول سے مولانا کا جھوٹ بولنا لازم آتا ہے پھر ہمارے حضرت نے مولانا کے قول کی تفسیر میں فرمایا کہ بزرگوں کو آئندہ کمالات کی طلب میں موجودہ کمالات پر نظر نہیں ہوتی پس مولانا اپنے کمالات موجودہ کی کمالات آئندہ کے سامنے نفی خیال فرماتے تھے اس کی ایسی مثال ہے کہ کسی شخص کے پاس ایک ہزار روپے ہیں وہ لکھ پتی کے سامنے مالدار نہیں البتہ دوسرے شخصوں کو مولانا کی نسبت یہ گمان کہ وہ خالی از کمالات تھے نہیں کرنا چاہئے ۔ ( ملفوظ 307 ) گھوڑے میں کمال وعیب پیدا کرنے کی مہارت : فرمایا کہ تھانہ ( یعنی تھانہ بھون ) پہلے زمانہ میں مثل اپنے نام کے تھا کہ یہاں کے کمالات کی تھاہ ( یعنی انتہاء ) نہ تھی یہاں پر ایک چابک سوار تھے وہ نئے گھوڑے کو ہاتھ پھیر کر سیدھا کردیتے تھے جب وہ گھوڑے سے لیٹنے کو کہہ دیتے تھے تو وہ پڑا رہتا تھا ۔ اور جب تک اٹھنے کو نہ کہتے تھے اٹھتا نہ تھا مظفر نگر میں ایک بنیئے نے اپنا گھوڑا پھیرا نے کو دیا وہ درست ہوگیا تو جس قدر روپیہ طے ہوا تھا اس نے اس سے کم دیا ۔ اور باوجود کہنے کے بھی اس نے اس کمی کو پورا نہ کیا تب انہوں نے اس بنیئے سے کہا کہ اس کے اندر ایک کمی ہ گئی ہے ۔ لاؤ وہ بھی سکھلا دوں اس نے کہا بہت اچھا بس اس کے گھوڑے کو یہ سکھلا دیا کہ سوار کو لیکر فورا قصاب کی دکان پر پہنچ جایا کرے چنانچہ وہ بنیا جب گھوڑے پر سوار ہوتا وہ گھوڑا اسے فورا قصاب کی دکان پر لے جاکر کھڑا کر دیتا ۔ بیچارہ بہت سخت پریشان ہوا اور مجبور