ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
4 رجب المرجب 35 ھ بروز پنجشنبہ ( ملفوظ 519 ) پنجابی صاحبان جن میں طلب صادق نہ تھی : پنجاب کے ایک صاحب جو حضرت سے بیعت ہونے کے لیے آئے تھے اور پھر بغیر ملے ہوئے یہ کہہ کر چکے گئے کہ مجھ سے حضرت نے رائپور جانے کے لیے کہدیا ہے اس پر فرمایا کہ ان صاحب نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ ذکروشغل کی تعلیم کردو میں نے یہ جواب دیا کہ آپ کون ہیں اس کے تجویز کرنے والے کہ ذکروشغل کی تعلیم کردو آپ مجھے اپنا مقصود بتلائیے کہ مقصود کیا ہے بعد تصیح مجھے اختیار ہے جس طرح چاہوں بتلاؤں ۔ انہوں نے کہا کہ میرا یہ مقصود ہے کہ نجات آخرت ہو اس پر فرمایا کہ فرائض مقدم ہیں مستحبات پر اور فریضہ نماز موقف ہے تصیح قرآن پر ۔ اول قرآن سناؤ یہ سن کر رہ گئے اور مجھ سے ملکر بھی نہ گئے معلوم ہوتا ہے کہ ناخوش ہوگئے کیونکہ خوش ہوکر جاتے تو مجھ سے اسی وقت کہتے کہ میں رائے پور جاؤں گا ۔ میں نے ان سے یہ کہا تھا کہ میرا طریقہ تربیت کا یہ ہے اگر یہ پسند نہیں ہے تو رائے پور چلے جاؤ وہاں تو اخلاق میں وسعت ہے ۔ اور یہاں جس طرح میں کہوں گا اس طرح کرنا ہوگا انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مجھے قرآن مجید تو صحیح یاد ہے میں نے کہا کہ یہ دعویٰ ہے جب تک ماہر نہ کہدے کیا اعتبار ۔ پھر حضرت والا نے فرمایا کہ میں اپنی خوشی سے خود ذکروشغل بتلا دیتا مگر ان کے تابع ہوکر کیوں بتلاتا ۔ میرا اتباع ان کو کرنا چاہیے تھا ۔ میں جانچتاہوں کہ آیا کس درجہ کی طلب ہے انہوں نے بیعت کی حقیقت کے بارہ میں مجھ سے خط وکتابت کی تھی اس میں بھی انہوں نے مجھے دق کیا تھا میں نے ضابط کے جواب دیئے تھے اول انہوں نے لکھا تھا کہ آپ کی تصانیف سے بیعت کی ضرورت معلوم ہوتی ہے ۔ جب اس پر میں نے جرح کی کہ کون سی کتاب سے معلوم ہوتا ہے تو پھر انہوں نے لکھا کہ آپ کی تصانیف سے بیعت کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی ۔ کسی کی طرف کسی بات کا منسوب کردینا تو کچھ سمجھتے ہی نہیں کسی سے کوئی بات سنی اور قرائن سے کسی کی طرف منسوب کردیا اسے تو جائز سمجھتے ہیں اور مجھ کو سخت ناگواری ہوتا ہے حتی کہ اگر کوئی محب میری طرف منسوب کرے غیر واقعہ امر کو خواہ وہ عبادت ہی ہو ۔ مثلا کوئی یہ کہدے میری نسبت کہ یہ 500 رکعت رات کو پڑھتے ہیں تو مجھ کو اتنا غصہ آئے گا جتنا