ملفوظات حکیم الامت جلد 18 - یونیکوڈ |
ہوں اور ساتھ ہی وہ بھی بھاگا سپاہی ہوشیار ہوگئے اور اس کو پکڑ لیا ۔ دیکھا تو ایک مجاور صاحب مزار میں سے نکل کر بھاگے وہ اچھے خاصے تھے سب انکو پہچانتے تھے نہ اندھے تھے ویسے ہی مکاری تھی ۔ ( ملفوظ 512 ) بلا اجازت جانا اور پھر آکر نہ بتانا آداب انسانیت کیخلاف ہے : ایک صاحب حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر ایک دن اطلاع حضرت کے کہیں چلے گئے پھر جب واپس آئے تو حضرت سے ملاقات اور آنے کی اطلاع بھی نہیں کی ۔ حضرت نے خود دریافت فرمایا تو انہوں نے جواب دیا کہ فلاں جگہ گیا تھا ۔ اس پر فرمای کہ آداب تعلقات سے بعید ہے کے آدمی بلا اطلاع چلا جائے اور آنے پر پھر ملاقات بھی نہ کرے اس پر تاؤ سے صورتا یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے حال کے متجس ہیں ۔ رازوں کے معلوم کرنے والے ہیں اور اپنا راز کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتے کہ کسی کو ہمارے آنے جانے کی خبر نہ ہو یہ طرز انسانیت وتہذیب کے خلاف ہے اس سے دوسرے کو توحش ہوتا ہے وہ صاحب معافی مانگنے لگے فرمایا کہ آپ ہی کہ نفع کی بات ہے کہ آپ سے توحش نہ ہو کوئی میرے نفع کی بات تو ہے نہیں آپکے ملنے سے جو مقصود ہے ۔ وہ اسی طرز سے ہو نہیں سکتی کہ آدمی چوروں کی طرح سے چلاجائے یہ خفیہ پولیس والوں کا کام ہے بلکہ وہ بھی ایسا نہیں کرتے وہ یہ معلوم ہونے دیتے کہ ہم خفیہ ہولیس کے ہیں ورنہ وہ خفیہ ہی نہیں جبکہ وہ ظاہر ہوگئے پھر فرمایا کہ اداب معاشرت گم ہوتے جاتے ہیں ۔ حالانکہ یہ امور طبعی ہیں مگر طبیعتوں سے سلامتی ہی مفقود ہوگئی ۔ ( ملفوظ 513 ) مولانا احمد حسن صاحب کی زہانت : فرمایا کہ خورجہ میں مولانا احمد حسن صاحب امر وہی اور ہمارے سب بزرگ تشریف لے جاتے تھے ایک بڑی بی نے وہاں ایک خواب دیکھ لیا تھا وہ مولانا احمد حسن صاحب کی بڑی خدمت اور بہت محبت کرتی تھیں ۔ ویسے بھی مولانا سید تھے میں نے ایک صاحب سے مولانا محمد قاسم صاحب کا ایک مقولہ سنا ہے مولانا نے ایک مثال دی بھی کہ میرا ذہن تو ایک سونے کا بہت بڑا ڈھیر ہے اور مولوی احمد حسن صاحب کا ذہن سونے کا ایک چھوٹا سا ڈھیر اور مولانا صاحب کا ذہن چاندی کا بہت بڑا ڈھیر ہے ۔ مولای احمد حسن صاحب کا ذہن میرے مناسب ہے اگرچہ زیادہ نہ ہو دوسرے صاحب کا اگرچہ زیادہ ہے ۔ مگر میرے مناسب نہیں ۔