ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
لوگ نہیں ہیں اور خود ان کو اطمینان نہیں ہوتا ۔ لا محالہ ہمارے مجمع کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے ۔ کسی نے کہا لوگ گو اہل دیوبند کے مخالف ہوں مگر تقدس کے تو سب قائل ہیں مفتی صاحب نے کہا پھر نہ معلوم اور کس چیز کی تلاش ہے ۔ فرمایا حضرت والا نے تقدس کے قائل ہیں مگر محقق نہیں سمجھتے کہتے ہیں نیک لوگ ہیں مگر علم سے کیا واسطہ حضرت گنگوہی کی نسبت بھی یہی کہا کرتے تھے کہ اچھے ہیں نیک ہیں با اثر ہیں ۔ مگر علم کم ہے اصل یہ ہے کہ آجکل علم عربی میں تقریر کرنے کو کہتے ہیں جو زبان جانتا ہو بس وہی علامہ ہے ۔ علم زبان دانی کا نام نہیں آجکل کے اکثر علامہ ایسے ہی ہیں جنہیں علم سے مناسبت بھی نہیں مگر الٹی سیدھی تقریر کر سکتے ہیں ۔ بس وہ معتمد علامہ ہیں ۔ اور ہمارے مجمع کو اس طرف توجہ نہیں اس کو اپنا منتہائے علم نہیں کرنا چاہتے علم تو شے ہی دوسری ہے یہ تو علوم کے مبادی ہیں مبادی کو مقصد بنانا جہالت ہے ۔ یہ تو زبان ہے اگر زبان علم ہے تو بدو بڑے عالم ہیں اور اگر غور سے دیکھا جائے تو اس میں بھی ہمارے مجمع سے وہ بڑھ نہیں سکتے بحمد اللہ بڑے بڑے تقریر کرنے والے موجود ہیں ۔ عدل فی النساء حضرت والا جب سفر میں گھر کو خط لکھتے تو دو لکھتے ایک اہل خانہ قدیم کو اور جدید کو ۔ چنانچہ آج بھی دو خط لکھے اور فرمایا بڑے لمبے لمبے خط لکھنا پڑے اصل میں ایک خط لمبا لکھنا تھا اس میں میں نے سفر کے کل حالات تفصیل کے ساتھ لکھے ہر ہر مقام پر پہنچے اور روانگی وغیرہ کو مفصل لکھا ہے کیونکہ میں ایک کو بہت غمگین چھوڑ آیا تھا ۔ منتظر کی تسلی بلا تفصیل کے نہیں ہو سکتی اور دوسری کو مفصل اس واسطے لکھا کہ عدل قائم رہے پہلے خط کی بجنسہ نقل کر دی ۔ چلتے وقت جدیدہ نے لفافے کارڈ مانگے میں نے دیئے اور اتنے ہی قدیمہ کو جا کر دیئے حالانکہ انہوں نے مانگے نہیں ۔ مفتی صاحب نے پوچھا دونوں کو خط یکسان لکھنا بے عدل میں داخل ہے ۔ فرما یا نہیں مگر دل شکنی کا زیادہ خیال رکھتا ہوں ۔ پھر فرمایا میرے جیسے قلب والے کو تعداد ازواج مناسب نہیں ۔ احقر نے عرض کیا یہ الہی بات ہے میرا خیال ہے کہ دوسرا کوئی نہیں کر سکتا ۔ حقوق شرعی اور حقوق مروت دونوں کا ادا کرنا مشکل ہے آپ ہی جیسے قلب والا عدل کر سکتا ہے اور تعداد اسی کو جائز ہے جو عدل کرسکے فرمایا اس وجہ