ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
دونوں کا باہمی معاملہ ان کے ساتھ چھوڑتے ہیں حق تعالی جانیں وہ جانیں اور امام مالک صاحب کے ہم بہت معتقد ہیں لوگوں میں کچھ اس قسم کی افراط و تفریط ہے کہ ذرا سے عیب سے کسی کو ہمہ عیب کر دیتے ہیں اور کسی کو باوجود بڑے عیبوں کے کچھ بھی نہیں کہتے سبب اسکا جہالت ہے ۔ عیب کی صورت کو دیکھتے ہیں بعضی باتیں صورتا بہت بری معلوم ہوتی ہیں اور حقیقت میں اتنی بری نہیں ہوتیں ۔ اور بعضی اسکے برعکس صورتا بہت ہلکی ہوتی ہیں ۔ اور در حقیقت بہت شدید ہوتی ہیں ۔ چشتیہ پر بدعتی ہونے کا الزام غلط ہے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آجکل کے بعض نقشبندی پر بدعتی ہونے کا الزام لگاتے ہیں ۔ لیکن غور کر کے دیکھ لیجئے کہ ایسے لوگ خود بدعتی ہیں اور چشتیہ بدعتی نہیں ہیں چشتیہ میں محبت کا غلبہ اس قدر ہے کہ ان سے عصیاں ہونا بہت مستبعد ہے اور یہ معترض لوگ اس بات میں ان سے گٹھے ہوئے ہیں تو عصیاں کا ہونا ان سے اتنا مستبعد نہیں اور جن باتوں کو وہ بدعت سمجھتے ہیں ان میں چشتیہ معذور ہوتے ہیں ۔ علاوہ بریں خود ان کا بدعت ہونا محل کلام ہے ۔ کیونکہ معلل بالعلت ہونا بہت ہی قریب ہے نیز چشتیہ میں ایک صفت انکسار ایسی ہے کہ ہزاروں خوبیوں سے بڑھ کر ہے ۔ اس خوبی پر بھی تو نظر کرنا چاہئے اور بعض معترض نقشبندیوں میں خود داری ہے ۔ حضرت گنگوہی ؒ کی نسبت بعضوں کے نقشبندیہ ہونے کا خیال پھر حضرت مولانا گنگوہی کا ذکر آیا کہ بعض لوگ ان کو خشک سمجھتے تھے وجہ یہ تھی کہ پہلی ملاقات میں مولانا میں خودداری معلوم ہوتی تھی ۔ کیونکہ آجکل کے کھاؤ کماؤ پیروں کی طرح خوشامد اور نرم برتاؤ نہ کرتے تھے مگر جب کوئی پاس رہتا تھا تو معلوم ہوتا تھا کہ مولانا میں خودداری کی ہوا بھی قطعا نہ تھی بلکہ فناء محض تھے ۔ حضرت گنگوہی ؒ کی نفاست مزاج اور ذکاوت حس مولانا نازک مزاج اور نفیس طبع ایسے تھے کہ ایک روز عشاء کو مسجد میں پہنچے اور یہ اس زمانہ کا ذکر ہے کہ مولانا آنکھوں سے معذور ہو چکے تھے مسجد میں پہنچکر فرمایا گندھک کی بو آتی ہے کسی نے دیا سلائی جلائی ہے تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس وقت سے چار گھنٹہ پہلے جلائی گئی تھی ۔ اللہ اکبر کیا ذکاوت