ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
نے رضائی میں ڈورے جلدی میں ٹیڑھے ڈال دیئے تھے ۔ تو مرزا صاحب کو رات بھر نیند نہیں آئی اور اس نزاکت پر دوسری حالت سنیئے کہ بیوی سخت بد مزاج تھیں ۔ وہ ان کو بے تکی سناتی تھیں اور کبھی ان کو کچھ نہیں کہا کوئی پوچھتا تو فرماتے وہ میری بڑی محسن ہے ۔ میرے اخلاق کی اصلاح اسی نے کی ہے ۔ یہ فرق ہے اللہ والوں اور دنیا والوں میں ۔ اس کے بعد ریل آگئی ۔ اور ڈوری گھاٹ سے مؤ کو روانہ ہوئے اس وقت یہ اصحاب ساتھ تھے ۔ منشی محمد اختر صاحب مفتی صاحب (محمد یوسف ) مولوی ابوالحسن صاحب ۔ مولوی عثمان صاحب ۔ حافظ خدا بخش صاحب ( احقر محمد مصطفی ۔ مولوی عبد الغنی صاحب ۔اس وقت اہل بڑھل گنج اور دیگر زائرین اور چپراسی کورٹ بادل ناخواستہ رخصت ہوئ ڈوری گھاٹ سے اگلے اسٹیشن پر تخمینا پچاس آدمی ملنے کو آئے ریل گاڑی مکان واحد ہے ۔ ریل گاڑی میں پوچھا گیا کہ امام اور مقتدی کا مکان ایک ہونا شرط ہے تو اگر ریل کے ایک درجہ میں امام ہو اور دوسرے درجہ میں مقتدی تو اقتدا صحیح ہو گی یا نہیں ۔ فرمایا مکان کا واحد ہونا عرف سے معلوم ہو سکتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ گاڑی میں سب درجے آپس میں ایسے ہیں جیسے کسی مسجد میں کئی درجے ہوں کوئی اندر کے دالان میں کھڑا ہو ۔ اور کوئی باہر کے دالان میں اور کوئی صحن میں تو اس کو جدا گانہ مکان نہیں سمجھا جاتا ہے ایسے ہی ایک گاڑی کے درجوں کو الگ الگ مکان نہ کہا جائے گا اور اقتداء صحیح ہو گی ۔ ریل میں نماز بیٹھ کر ہو سکتی ہے یا نہیں ۔ پوچھا گیا ۔ ریل میں نماز بیٹھ کر بھی ہو سکتی ہے یا نہیں ۔ فرمایا ہو سکتی ہے جب کہ کھڑا نہ ہو سکے اور یہ قضیہ کے مقدم کو واقع ہوتے کبھی نہیں دیکھا میرے نزدیک ریل میں کبھی یہ ضرورت پیش نہیں آئی کہ نماز بلا بیٹھے نہ پڑھی جا سکے ۔ میں نے بہت لمبے لمبے سفر کئے ہیں اور مجمع بھی بہت زیادہ رہا ہے مگر ہمیشہ نماز کھڑے ہو کر پڑھی ہے ۔ نماز ایسی چیز ہے جس کو لاپروائی سے ادا کیا جائے آدمی کی طبیعت میں ذرا سا اہتمام اور پروا ہو تو کچھ دقت پیش نہیں آتی خصوصا ہندوستان کے سفروں میں تو کچھ بھی دقت نہیں ہوتا ۔ اور جب آدمی ارادہ ہی نہ کرے تو سینکڑوں بہانے موجود ہیں کاش مسلمان سب کے سب نماز کے لئے مستعد ہوتے