ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
میں سے جس کی زیادہ ضرورت ہو اس کو اختیار کیجئے ۔ عرض کیا کہ ضرورت تو دونوں کی ہی ہے ۔ فرمایا ہاں یہ صحیح ہے کہ دونوں کی ضرورت ہے نسب یہ ہے کہ مستقل درس کا شغل رہے اور کبھی کبھی وعظ بھی ہوا کرے ۔ یہ واقعہ ہے آجکل کے واعظوں کا طرز عمل یہی ہے ایسے وعظ کا اثر بھی نہیں ہوتا ۔ اور جب معلوم ہو جائے گا کہ یہ کشتی واعظ اور محصل چندہ نہیں ہیں ۔ اور سوائے دین کے ان کی کوئی غرض نہیں کیونکہ مدرسے سے تعلق رکھتے ہیں تو لوگوں کو نفرت نہ ہوگی بلکہ انس ہوگا اور ایسے وعظ کا اثر ہوگا اور یہ سہل بھی ہے ۔ کیونکہ روز مرہ پھرنا نہ پڑے گا اور دونوں کام ہوتے رہیں گے ۔ ریاست کے اموال کا حکم سوال : مفتی صاحب نے پوچھا ریاستوں میں بعض کے وظیفے اور وثیقے مقرر ہیں ۔ ان کا لینا کیسا ہے ۔ فرمایا میری طبیعت تو ریاستوں کی عطا کی طرف سے کبھی صاف نہیں ہوئی ۔ اس واسطے کہ یہ بات تحقیق طلب ہے کہ والی مالک ہے یہ ملک ۔ اگر مالک کہا جائے تو اس میں میراث ہونا چاہئے ۔ جب والی مرجائے تو چاہئے کہ حسب قاعدہ فرائض ریاست تقسیم کردی جائے اور اس میں ملکیت تمام ورثہ کی ثابت ہو جائے اور ایسا ہوتا نہیں ۔ بلکہ ایک شخص ولیعہد ہوتا ہے ۔ اور وہی مالک بن جاتا ہے تو ہر والی غاصب ہے اور دوسروں کے املاک بین بلاازن تصرف کرتا ہے تو جملہ ملازمین اور وثیقہ دار حرام کھاتے ہیں ۔ مگر یہ شق بعید ہے ۔ اور اگر ملک کہا جائے تو اس کے تصرفات بابت آمدنی کے موافق شرع کے ہونا چاہئے ۔ حالانکہ ایسا نہیں لہذا اس آمدنی کو حلال کہنا مشکل ہے البتہ یہ معلوم ہوا ہے کہ ریاستوں میں دیہات مستاجری ٹھیکہ پر دیئے جاتے ہیں یہ ظاہرا علامت ہے والی کے مالک ہونے کی گو ملک ہونے کی صورت میں بھی ایسا ہو سکتا ہے ۔ اور فرمایا میں ہمیشہ سے مسلمان ریاست کی تنخواہ سے انگریزی ملازمت کی تنخواہ اچھی سمجھتا ہوں ۔ کیونکہ ریاست کی تنخواہ میں یہ خرابی ہے کہ اگر والی کو مالک کہا جائے تو میراث نہ دینے کی وجہ سے ہزاروں کے حقوق اس میں شامل ہیں جو غصب کئے گئے ہیں اور سب مال حرام ہے اور اگر ملک کہا جاتا ہے تب بھی محصول بے قاعدہ لئے گئے ہیں اور والی مسلم مکلف ہے احکام شرعیہ کا جو محاصل خلاف شرع لئے جاتے ہیں وہ مال حرام ہوتا ہے تو حرام وحلال مخلوط ہوتا ہے غرض ریاست کے اموال یا تو کل حرام ہیں