ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
تہذیب حال کی حقیقت تصنع ہے جس کی حقیقت سوائے تصنو کے اور دکھلاوے کے کچھ بھی نہیں اور جس میں مفاسد ہی مفاسد ہیں اگر دنیادار بھی نمائش چھوڑ کریہی طریقہ اختیا ر کرلے تو قطع نظر گناہوں سے بچنے کے دنیا میں بھی تو تباہ نہ ہوں دیکھئے کیسی ریاستیں ان تکلفات میں تباہ ہو گئیں اور لطف یہ ہے کہ خود سب کے سب ان رسوم کے شاکی ہیں ۔ مگر چھوڑتے نہیں ۔ آدمی کو چاہئے اتنے پاؤں پھیلائے کہ جتنی گنجائش ہو ۔ اور ان تکلفات میں اس کا خیال ہو ہی نہیں سکتا ۔ سب کو چاہئے کہ ایک دم ان رسوم کو الگ کریں سادہ زندگی عجیب چیز ہے ۔ حلال کی کمائی میں تکلفات نہیں ہو سکتے اور حلال چیز کی کمائی میں تو سوائے سادہ زندگی کے کچھ ہو ہی نہیں سکتا یہ چٹک مٹک جب ہی ہو سکتی ہے جب کمائی حرام کی ہوتی ہے ۔ میرے ایک دوست ہیں مولوی ظہور الحسن صاحب سب رجسٹرار ان کو اپنے ایک بھائی کے مقدمہ میں الہ آباد جانا پڑتا تھا ۔ الہ آباد میں ایک وکیل تھے ۔ مولوی محمد نام ( مولوی جزو علم ہے لقب نہیں ہے ۔) انہوں نے ان کو وکیل کیا تو یہ جب الہ آباد جاتے تو انہیں کے یہاں ٹھیتے ۔ ایک وکیل صاحب کی سادگی کا قصہ ایک دفعہ کا قصہ ہے کہ یہ ان کے یہاں ٹھیرے ہوئے تھے ۔ انہون نے ان کے بچوں کو سنا یہ کہتے پھرتے تھے کہ ہمارے یہاں شیخ جی آئے ہیں یہ سمجے کہ کوئی اور مہمان ہوں گے مگر اس روز وقت پر کھانا نہیں کھایا ۔ انہوں نے خیال کیا کہ آج شیخ جی جو آئے ہوئے ہیں ان کے لئے پر تکلف کھانے پکے ہوں گے ۔ اس وجہ سے دیر ہو گئی ہے جب بہت ہی دیر ہو گئی تو انہوں نے ایک نوکر سے پوچھا وہ شیخ جی جو ان کے یہاں آئے ہوئے ہیں نظر نہیں آئے وہ کہاں ہیں نو کر یہ سن کر بہت ہنسا اور کہا کہ ان کے یہاں کی اصطلاح ہے کہ شیخ جی فاقہ کو کہتے ہیں آج ان کے یہاں فاقہ ہے دیکھئے سادگی اس کا نام ہے کہ پاس ہوا تو خود بھی کھا لیا اور مہما ن کو بھی کھلا دیا اور نہ ہوا تو قرض نہ کیا ۔ اور تربیت دیکھئے کتنی اچھی ہے کہ اولاد کو بچپن ہی سےتنعم کے خلاف کا عادی بنالیا ۔