ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
اپنا کچھ نقصان ہوا تو اس کے پاس کو بھی نہ جاویں ۔ یہ وہ حالت ہے کہ جس کو خدا تعالی نے اس طرح بیان فرمایا ہے ۔ ومن الناس من يعبد الله علي حرف فان اصابه خير ن اطمان به او ن اصابته فتنه ن انقلب علي وجهه خسر الدنيس والآخره ذلك هو الخسران مبين ۔ یعنی بعض آدمی وہ ہیں جو حق تعالی کی عبادت کا دم بھرتے ہیں ۔ مگر کنارہ پر رہتے ہیں اگر ان کو کچھ بھی نفع پہنچا تب تو مطمئن ہو گئے اور اگر کوئی تکلیف پہنچی تو بس منہ پھیر کر چلدیئے فرماتے ہیں کہ انہوں نے دنیا بھی کھوئی اور دین بھی ۔ فرائض پوچھنے میں صرف میراث حاصل کرنی مقصود ہوتی ہے آجکل یہ حالت ہے کہ لوگ فرائض کے مسئلے پوچھتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرعی حکم کی طلب ہے ۔ حالانکہ مقصود صرف یہی ہوتا ہے کہ ہم کو میراث ملجائے ۔ اگر ان کو دور کے رشتہ سے پانچ ہزار میراث کے مل گئے تو کہتے ہیں شریعت کیسا اچھا قانون ہے ۔ کسی کا حق نہیں مارتا ہر ایک پورا پورا حق دلواتا ہے حق تلفی تو اس قانون میں ہے ہی نہیں ۔ اور اگر انہیں یہ معلوم ہو گیا کہ ہمیں کچھ نہ ملے گا تو کہتے ہیں بس رہنے دیجئے فرائض نکالنے کی ضرورت نہیں ہم سے تو یہ مال گیا حتی کہ بعض لوگوں نے فرائض نکلوائے جب دیکھا کہ ان کا حصہ نہیں ہے تو کہا بس رہنے دو آگے کیوں تکلیف کرتے ہو اب ضرورت نہیں رہی ۔ ایک شخص نے مجھ سے ایک فرائض لکھوائی اس میں ان کا حصہ نہ آیا تو پوچھنے لگے کہ میرا حصہ کیوں نہ آیا ۔ مجھے تو بڑی امید تھی میں نے کہا کہ فلاں وارث موجود ہے اس کے ہوتے ہوئے آپ کو نہیں مل سکتا تو کہنے لگے کہ پھر اس وارث کو نہ لکھو سبحان اللہ واقعات میں تراش خراش ہونی اختیار ہو گئی ہے ۔ یہ حالت ہے ہم لوگوں کی کہ بس دنیا کے نفع نقصان کو دیکھتے ہیں اگر دین بھی ساتھ میں آگیا تو خیر ورنہ کچھ اس کی پرواہ نہیں تو ہم لوگ دین کو بھی دین ہونے کی نیت سے نہیں لیتے اور اہل اللہ اگر دنیا بھی لیتے ہیں تو دین کی نیت سے ۔ دیکھئے حضرت خواجہ نقشبند نے وسعت بھی اختیار کی تو کس نیت سے ہم لوگ اگر وسعت اختیار کرنے میں بھی نیت کر لیں کہ عزیمت پر عمل کرنے میں تکلیف ہے ۔ اور ہم کو اس کے تحمل کی ہمت نہیں تب بھی غنیمت ہے مگر ایک حد جواز سے باہر نہ جانا چاہئے ۔ دوسرے صرف کسی ایک جزو دین کو منتہی نہ قرار دے لیں بلکہ تمام اجزائے دین میں پورا پورا اتباع کریں ۔ کیونکہ ما انا علیہ میں