ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
گفتگو کرے ۔ اور ان کو راضی کر لے اور جو بات طے ہو جائے گی میں اس پر عمل کرنے کو تیار ہوں ۔ دوسری یہ کہ صرف ایک دو جگہ کے واسطے میں اتنی تکلیف نہ اٹھاؤںگا ۔ کم از کم پانچ جگہ کی فرمائشیں بھی ہو جائے گی ۔ اور وہ لوگ اپنے اپنے وکلاء کا انتظام کر لیں گے ۔ تو میں چلا آؤں گا ۔ تار سے پیچیدہ باتیں طے نہیں ہوتی ہیں لوگوں نے کہا ہم کو یہ شرطیں بھی منظور ہیں ۔ مگر سہولت اس میں ہے کہ خواجہ صاحب کو تار دیدیں ۔ تاکہ ان کو ان تجویزوں کی اطلاع ہو جائے ۔ اور وہ اجازت دیدیں ۔ فرمایا کہ ایسی باتیں تار سے طے نہیں ہو سکتی ہیں ۔ تار کے قصہ بہت دیکھے ہیں یہ باتیں بالمشافہ بھی گھنٹوں میں طے ہوتی ہیں ۔ تاروں سے کام نہیں چل سکتا ہے ۔ نیز میری عادت ہے کہ میں کسی پر ذرا بھی بار نہیں ڈالتا ۔ اور کسی کو مقید کرنا نہیں چایتا ۔ جو لوگ میرے ساتھ ہیں اس وقت کے میرے قیام سے وہ مقید ہو جائیں گے ۔ خدا جانے کسی کو کیا کیا ضرورتیں در پیش ہوں ۔ اور مقید ہو جانے سے کیا کیا مصلحتیں ان کی فوت ہو جائیں ۔ اس واسطے ضرورت ہے اور مصلحت اسی میں ہے کہ اس وقت الہ آباد چلا جاؤں ۔ اور اگر بات طے ہو جائے تو لوٹ آؤں ۔ لوگوں نے کہا ہم کو یہ سب منظور ہے اور ہم مشورہ کر کے وکلاء کو بھی تجویز کرتے ہیں ۔ جو حضرت کے ساتھ جائیں گے ۔ فرمایا اتنی بات میں دوبارہ گوش گذار کئے دیتا ہوں کہ اس گفتگو کو وعدہ نہ سمجھا جائے ۔ یہ میں نہیں کہتا کہ الہ آباد سے لوٹ ہی آؤں گا ۔ بلکہ جو بات وکلاء اور خواجہ صاحب سے طے ہو گی ۔ اس پر غور کر کے عمل کروں گا ۔ ممکن لوٹنا نہ ہو ۔ تو اس صورت میں یہ نہ کہا جائے کہ وکلاء کا نا حق دق کیا ۔ اور خرچ کرایا اور یہ سب خرچ اور دقتیں یقینی امید پر نہیں ہیں ۔ بلکہ امید موہوم پر گورا کی جائیں ۔ لوگوں نے کہا یہ سب کچھ منظور ہے اور چار جگہ کے نام لوگوں نے اسی وقت لکھوا دیئے ۔ وہ چار جگہ یہ تھی ۔ ہمی پور ۔ پورہ معروف ۔ مبارک پور ۔ بہادر گنج وغیرہ ۔ بلانے والے کو ساتھ لے لینا جب حضرت والا مؤ سے روانہ ہو کر ریل میں بیٹھ گئے تو پوچھا جو لوگ بلانا چاہتے تھے نہ معلوم انہوںنے وکیلوں کے بھیجنے کا کیا انتظام کیا خدام نے عرض کیا ۔ صحیح تو معلوم نہیں غالب یہ ہے کہ سست ہو گئے کیونکہ ان کو امید نہی رہی کہ خواجہ صاحب ہماری تجویز کو منظور کریں گے ۔ فرمایا بس جو ش ختم ہو گیا ۔