ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
عامی آدمی قول امام معارض نہیں کہہ سکتا مفتی صاحب نے پوچھا کہ اگر عامی شخص کو کسی مسئلہ میں ثابت ہوجائے کہ مجتہد کا قول حدیث کے خلاف ہے تو اس وقت میں حدیث پر عمل کیوں جائز نہ ہوگا ۔ ورنہ حدیث پر عمل قول مجتہد کی ترجیح لازم آتی ہے ۔ فرمایا یہ صرف فرضی صورت ہے عامی کو یہ کہنے کا منصب ہی کہاں ہے کہ مجتہد کا قول حدیث کے معارض ہے ۔ اس کو حدیث کا علم مجتہد کے برابر کب ہے ۔ نیز وہ تعارض اور تطبیق کو مجتہد کی برابر کیسے جان سکتا ہے تو اول تو یہ صورت فرضی ہے کہ قول مجتہد حدیث کے معارض ہو ۔ پھر میں تنزل کر کے کہتا ہوں کہ اگر اس عامی شخص کا قلب گواہی دیتا ہو کہ اس مسئلہ میں مجتہد کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے تو اس صورت میں بھی ترک تقلید جائز نہیں اس کی نظیر یہ ہے کہ طبیب سے نسخہ لکھواتے ہیں تو اس نسخہ کو غلط کہنے کی کیا صورت ہوسکتی ہے۔ عامی تو عامی کوئی دوسرا طبیب بھی اس نسخہ کو غلط نہیں کہہ سکتا ۔ دوسرا نسخہ دوسراطبیب تجویز کردے ۔ لیکن اس نسخہ کو غلط کہنے کا مجاز نہیں اس وقت تک کہ اس نسخہ کو بالکل صریح غلط ثابت نہ کرسکے ۔ دوسری تجویز کے بہت سے وجوہ ہوسکتے ہیں ۔ حتی کہ یہ بھی ایک وجہ ہوتی ہے کہ ایک دہلی کا تعلیم یافتہ ہے دوسرا لکھنؤ کا ، لکھنؤ کا طرز مطب اور ہے اور دہلی کا اور ہے ۔ اور اوزان ادویہ میں بھی فرق ہے تو ایک دہلی کے تعلیم یافتہ کو لکھنؤ کے نسخہ کو صرف اس وجہ سے غلط کہہ دینا کہ اس کے اوزان میں فرق ہے کیسے درست ہو سکتا ہے ۔ علی ہذا مجتہدین کے اختلاف کے وجوہ بھی بہت ہیں ۔ وجوہ اختلاف کا اختصار نہیں ہوسکتا بعض وقت رائے کا اختلاف موضع کے اختلاف سے بھی ہوسکتا ہے ۔ چنانچہ امام شافعہ صاحب کا فقہ جدید اور ہے قدیم کے منضبط کرنے کے بعد انہوں نے مصر کا سفر کیا تو بہت سے اقوال میں تغیر کرنا پڑا ۔ جیسا کہ فقہ کے ماننے والوں سےپوشیدہ نہیں اس کی یہ وجہ نہیں کہ سفر کرنے سے دلیلیں بدل گئیں بلکہ وجہ یہ ہے کہ سفر سے لوگوں کے حالات کا تجزیہ مزید حاصل ہوا جس سے بہت سے مواقع حرج کے معلوم ہوئے جو پہلے نہ تھے ۔ پہلے حکم اورتھا ۔اور حرج معلوم ہونے کے بعد ظاہر ہے کہ وہ حکم بدلنا ضرور ہوا ۔ اسی طرح بہت سی رایوں میں اختلاف ہوا غرض وجوہ اختلاف کا احصاء مشکل ہے لوگوں نے اس کے واسطے قواعد منضبط ضرور کئے ہیں ۔