ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
كصلصلة الجرس وهو اشد ها علي وہاں اضر کا ترجمہ کیسے بنے گا ۔ بس ان عالم صاحب کی یہ حالت کہ رنگ فق تھا اور سر سے پیر تک عرق میں ڈوبے ہوئے تھے ( یہ قصہ مولوی مرتضی حسین صاحب کی زبانی ہے ) مولوی محمود حسن صاحب کا اایک اور قصہ بابت تواضع ایک حکایت مولانا کی خود میری دیکھی ہوئی ہے وہ یہ کہ مولانا ہمارے مدرسہ جامع العلوم کانپور میں جلسہ دستار بندی میں تشریف لائے میں نے وعظ کیلئے عرض کیا ۔ فرمایا مجھے وعظ کہنا نہیں آتا ۔ میں نے کہا حضرت وعظ تو کہنا ہی پڑیگا ۔ فرمایا تمھارے وعظ سے لوگ مانوس ہیں اور پسند کرتے ہیں تمھارا وعظ ہونا مناسب ہے ، اور میرے بیان سے لوگ خوش نہ ہوں گےاور اس سے میرا کچھ نہیں جا ئے گا ۔ تمہاری اہانت ہوگی کہ ان کے استاد ایسے بے علم ہیں ۔ میں نے عرض کیا نہیں حضرت اس سے ہمارا فخر ہوگا ۔ کہ ان کے استاد ایسے ہیں ۔ فرمایا ہاں اس طرح فخر ہوگا ۔ کہ لوگ کہیں گے یہ استاد سے بھی بڑھ گئے غرض مولانا نے وعظ کو منظور فرمالیا اور بیان شروع ہوا ۔ مولانا کا علم سبحان اللہ پھر مجمع طلباء وعلما ء کا مولانا کی طبیعت کھلی ہوئی تھی اور مضامین عالیہ بیان ہو رہے تھے اتنے میں مولانا لطف اللہ صاحب علی گڈھی تشریف لے آئے ۔ پس ایک دم مولانا بیٹھ گئے اور وعظ قطع کر دیا ۔ مولوی فخر الحسن صاحب نے دوسرے وقت دریافت کیا کہ یہ بات کیا تھی فرمایا اس وقت مجھ کو خیال ہوا کہ اب وقت ہے مضامین کا یہ بھی دیکھیں کہ علم کیا چیز ہے تو اس طرح سے وعظ میں خلوص نہ رہا ۔ میں نے قطع کر دیا ۔ سبحان اللہ یہ لوگ کیسے بے نفس ہیں ۔ راحت رسانی ہی ادب ہے بعض لوگ حد سے زیادہ تہذیب اور ادب کا برتاؤ کرتے ہیں اس پر فرمایا حضرت ولانے کہ اس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے ۔ انہوں نے عرض کیا حضرت یہ تو آپ کے اخلاق ہیں ۔ مگر خادموں کو تو تہذیب اور ادب ہی چاہئے ۔ فرمایا راحت رسانی مقدم ہے ادب پر یہی ادب ہے ۔ دیوبند یوں کے اخلاق علماء کے اخلاق کا ذکر ہوا تو فرمایا ہماری طرف کے علماء کو حق تعالی نے بڑے اخلاق دیئے ہیں