ملفوظات حکیم الامت جلد 20 - یونیکوڈ |
جز و لایتجزی کا ثبوت فرمایا مولانا محمد قاسم صاحب نے رام پور انغانان میں وعظ کہا اس میں جز و لایتجزی کا ثبوت دیا اذا وقعت الواقعة ليس لوقعتها كاذبة اور علی الاعلان کہا کہ میں معقول کے تمام مسائل کو نفیا یا اثباتا قرآن شریف سے نکال سکتا ہوں ۔ مولانا کا علم لدنی تھا اور میرا خیال یہ ہے کہ مولانا میں ہیبت کے ساتھ ذکاوت بھی غالب تھی ۔ مگر یہ ایسی بات ہے کہ اس سے ہمارے مجمع کا کوئی آدمی کم اتفاق کریگا ۔ مولانا محمد قاسم صاحب کا علم ۔ اور ان کے اوصاف مولانا میں حق تعالی نے بہت سے اوصاف جمع کر دیئے تھے شرمگین ایسے تھے کہ نکاح کے بعد کسی نے غسل جنابت کرتے نہیں دیکھا ۔ سرد سے سرد موسم میں بھی قصبہ سے باہر جا کر تالاب میں نہائے تھے ۔ مولانا محمد یعقوب صاحب سے کسی نے میرے سامنے پوچھا کہ مولانا کو یہ کمالات کس طرح حاصل ہوئے ۔ فرمایا کئی سبب جمع ہو گئے ۔ مولانا میں یہ کمالات یکجا ہو جانے کے ایک خلقۃ مزاج کا معتدل ہونا کیونکہ حسب سنت الہی اعتدال مزاج سے نفس کام فائض ہوتا ہے ۔ دوسرے استاد ان کو کامل ملے جیسے مولانا مملوک علی صاحب کہ ہر فن کے محقق اور طرز تعلیم میں بے مثل تھے ۔ تیسرے پیر کامل تھے ۔ چوتھے قدرتی طور پر مولانا میں ادب بہت تھا ۔ اور جتنا ادب زیادہ ہوتا ہے اتنا ہی فیضان زیادہ ہوتا ہے ۔ اور پانچویں تقوی کامل تھا ۔ ادب اس قدر تھا کہ اللہ کا نام لینے والے بدعتیوں بھی نہ الجھتے ۔ مولانا محمد قاسم صاحب کا ایک قصہ بابت تواضع مہمانداری ٹھسکہ ایک مقام ہے وہاں کے ایک بزرگ مولانا محمد قاسم صاحب کے یہاں آئے وہ اہل سماع میں سے تھے مگر دوکان دار نہ تھے ۔ مولانا نے فورا ایک روپیہ نذر کیا اور خدام سے کہہ دیا کہ بدعت کا ذکر مطلق نہ کرنا ۔ کیونکہ مہمان کو رنج ہوگا جب کھانے کا وقت ہوا تو کھانا شاہ صاحب کو خدام سے کھلوایا اور ان کے سائیسوں کو خود کھلایا ( ا ن کے سائیس بھنگی تھے ) چلتے وقت شاہ صاحب نے فرمایا کہ درویش آپ ہی ہیں اور ہم تو محض نقال ہی ہیں ۔ یہ قصہ مولانا گنگوہی نے سنا تو فرمایا کہ اچھا نہیں کیا من وقر اهل بدعة فقد اعان علي هدم الاسلام حدیث ہے کسی نے یہ مقولہ حضرت کا وہاں جا نقل کیا تو مولانا نے کہا ۔ یہ تو بدعتی