ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
سعادت حاصل کر لوں ) دیکھئے اگر معاملات میں صحابہ علیہم الرضوان کو آزادی نہ ہوتی تو وہ یہ لفظ کہ انتقام لوں گا کیسے زبان پر لا سکتے تھے ـ گو انہوں نے اس کو پہلو بوسی ہی کا حیلہ بنایا اور حضورؐ کا کمال تو محتاج بیان ہی نہیں کہ کس طرح بے تکلف ان کے مطالبہ پر انتقام دینے کو تیار ہو گئے ـ سبحان اللہ اسلام اخلاق بنوی سے پھیلا ہے 90 ـ فرمایا حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ اسلام حضورؐ کے اخلاق کریمانہ سے پھیلا ہے نہ کہ شمشیر سے اور اگر بفرض محال تسلیم بھی کر لیا جائے کہ اسلام شمشیر سے پھیلا ہے تو یہ بتایا جائے کہ ان شمشیرزنوں پر کس نے شمشیر اٹھائی تھی (بعینہ یہی جواب بعض انگریز مصنفین نے بھی دیا ہے ولنعم ماقیل ؎ اسلام کو جو کہتے ہیں پھیلا بزور تیغ یہ بھی کہیں کہ پھیلی خدائی بزور موت 12جامع صحابہ کرام علیہم الرضوان کی بے تکلفی اور احترام 91 ـ فرمایا صحابہ علیہم الرضوان حضورؐ کے ساتھ باوجود اتنہائی بے تکلفی کے ادب بھی حد سے زیادہ کرتے تھے ـ اسی واسطے کفار مکہ کے تجربہ کار و معمر ایلچی نے صلح حدیبیہ میں صحابہ علیہم الرضوان کے ادب و احترام کی حالت دیکھ کر یہ رائے قائم کی تھی کہ تعظیم و تکریم کی یہ حالت میں نے کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کے دربار میں بھی نہیں دیکھی ـ اس ایلچی نے صحابہ علیہم الرضوان کی بہت سی خصوصیات شمار کرائی تھیں منجملہ ان کے یہ بھی کہا تھا لا یحدون النظر الیہ یعنی حضورؐ کی جانب ٹکٹکی باندھ کر نہیں دیکھتے ہیں ـ اسی سلسلہ میں فرمایا کسی نے ایک صحابہ رضی اللہ عنہ سے حضورؐ کا حلیہ مبارک پوچھا فرمایا یہ اس شخص سے پوچھو جس نے چہرہ انور کو کبھی نظر بھر کر دیکھا ہو یعنی ہم کو کبھی یہ ہمت و جرات نہیں ہوئی کہ روئے مبارک نظر جما کر دیکھیں اسی لطیف مضمون کو اہل حال نے خوب باندھا ہے ؎ بخدا کہ ر شکم آید ز رد و چشم روشن خود کہ نظر دریغ باشد بچنیں لطف روئے