ملفوظات حکیم الامت جلد 25 - یونیکوڈ |
کافی علم ہونا چاہئے تھا ـ خصوصا ان حالات کا جو بالکل ظاہر اور کھلے ہوئے ہیں لیکن وہ ایک روز آئے اور کہنے لگے کہ ایک شخص تم پر اعتراض کر رہا تھا کہ فتوحات بھی بہت ہیں مطبع کی آمدنی بھی ہے کتابوں کی تجارت سے بھی کافی آمدنی ہے ـ ہدیے اور تحفے بھی آتے رہتے ہیں ـ میں نے اس شخص کو یہ جواب دیا کہ تم نے آمدنی کے ذرائع تو دیکھے لیکں خرچ کو بھی دیکھا کہ وہ کتنا ہے ـ یہ گفتگو سن کر میں نے کہا کہ خان صاحب کیا آپ کا بھی یہی خیال ہے کہ مطبع وغیرہ میرا ہے ـ وہ بہت تعجب سے بولے اچھا کیا یہ آپ کا نہیں ہے ـ اب دیکھئے جب پاس رہنے والے متعلقین کا یہ حال ہے تو دور کے رہنے والے کی کیا شکایت ـ اسی سلسلہ میں فرمایا اگر میں تجارت کرتا ہوتا تو چھپانے کی کیا ضرورت تھی ـ نہ اس میں شرعا کوئی گناہ ہے نہ عرفا کوئی ذلت ہے ـ باقی میں جو تجارت وغیرہ کا انکار کر دیتا ہوں اس سے میرا مقصود یہ ہے کہ لوگوں کو صحیح حال معلوم ہو جائے ـ دھوکہ میں مبتلا نہ ہوں ـ بلکہ اگر تجارت عرفا ذلت بھی ہوتی اور میں کرتا ہوتا تو تب بھی ضرورت ظاہر کر دیتا کیونکہ اس میں شرعا کچھ حرج نہیں ـ ھدایا کے متعلق معمول 58 ـ فرمایا ہدیہ میں جو چیزیں آتی ہیں اگر وہ میری ضرورت سے زائد ہوتی ہیں تو یا تو کسی رشتہ دار اور دوست کو بلا قیمت دے دیتا ہوں اور اگر بلا قیمت دینے کی ہمت نہیں ہوتی تو فروخت کر دیا کرتا ہوں گو بظاہر اس میں سبکی ہے عرف کے خلاف ہے ـ مگر اس کے سوا کیا کر سکتا ہوں ـ رکھانا فضول اور تقسیم کے لائق نہیں یا تقسیم کی ہمت نہیں تو اب بجز بیع کے اس سے انتفاع کی کیا صورت ہے ـ حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی کے پاس جب ہدایا ضرورت سے زائد جمع ہو جاتے تھے ـ تو سہارنپور اپنے مجاز حافظ قمرالدین صاحبؒ کے پاس فروخت کرنے کیلئے بھیج دیا کرتے تھے ـ لوگوں کے اعتراض کی باکل پرواہ نہیں فرماتے ـ ہدایا کے فروخت کرنے میں ہم نے نہ تو کسی پر ظلم کیا نہ کسی سے بھیک مانگی ـ جو مصلحت سمجھی اس کے موافق کیا اب اگر کوئی اعتراض کرتا ہے تو اسکی حماقت ہے ـ ہاں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کچھ شریعت کے خلاف تو نہیں کیا ـ اسی