ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
مقصود کام ہے یعنی نفس کی اصلاح اور اعمال کی خبر گیری ـ مگر مقصود کو چھوڑ کر غیر مقصود کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ـ محققین کا مذہب یہ ہے کہ آم کھانے سے غرض نہ کہ پیڑ گننے سے ـ اس کی ایسی مثال ہے دیکھئے سکہ ہمارے کام کا ہے مگر یہ بات کہ اس کا مادہ کیا ہے اور کس کارخانہ میں بنتا ہے اگر نہ بھی معلوم ہو تب بھی وہی کام اس سے نکلیں گے جو معلوم ہونے پر نکل سکتے تھے ـ پس عمل کا اہتمام نہ کرنا بڑی کوتاہی ہے اور عمل کو مہتمم بالشان سمجھنے کے بعد ایک کوتاہی اور ہے جس میں عوام تو کیا خواص بھی مبتلا ہیں کہ اعمال واجبہ کی وہ عظمت اور وقعت قلوب میں نہیں جو غیر واجبہ کی ہے مثلا ( حقوق العباد وغیرہ کی فکر نہیں اور ) نوافل و ظائف وغیرہ کی کثرت کو زیادہ موجب قرب حق سمجھتے ہیں اور جو اصل مقصود تھا اسی کو حقیر سمجھا جاتا ہے کتنا بڑا ظلم عظیم ہے اور اعمال واجبہ کے حقیر سمجھنے کا سبب ان اعمال کا عموم ہے کہ اس کو تو سب ہی کرتے ہیں ـ اسمیں خصوصیت ہی کیا ہوئی لیکن اگر یہ وجہ حقارت کی ہے تو گنی اور روپیہ بھی تو سب ہی کے پاس ہے تو عموم کی وجہ سے ان کو بھی حقیر سمجھنا چاہئے ـ اور جیب سے نکال کر پھینک دینا چاہیے حالانکہ ایسا نہیں بلکہ اس عموم کے سبب اوروں سے زیادہ ان کو جمع کیا جاتا ہے اور ہوا سب سے زیادہ عام اور سستا ہونا اگر اس کی دلیل ہے کہ وہ چیز حقیر اور ذلیل ہوتی ہے تو اس کو بھی حقیر اور ذلیل سمجھئیے ناک اور منہ بند کر لیجئے حقیقت معلوم ہوجائے گی ـ اور کیا نعوذ باللہ انبیاء علیہم السلام ایسے کاموں کے اہتمام کیلئے مبعوث فرمائے گئے تھے جن کو تم حقیر اور فضول سمجھتے ہو توبہ کرنا چاہیے ان فاسد عقائد سے ـ پس اصل چیز اور اصل مقصود اعمال واجبہ ہی ہیں اور عموم ہونا ہی دلیل ہے افضلیت کی جیسے میں نے مثال عرض کی سکہ کی اور ہوا کی ـ کہ انکا عموم مسلزم نہیں حقیر اور فضول ہونے کو ـ بلکہ زیادہ نافعیت کی دلیل ہے ـ ملفوظ 44: آج کل درویشی دو پیسہ کی فرمایا ! کہ آجکل بزرگ اس کو سمجھتے ہیں کہ اس کے کپڑے گیروی ہوں لٹیں ناف تک