ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
عنین ہونے کا جو کہ نقص ہے آج آپ نے اس شبہ کو رفع کر دیا - معلوم ہوا کہ پیر کامل ہیں ـ اب رہا یہ کہ رنڈیاں آتی ہیں یہ ایک گناہ ہے تو اس گناہ سے توبہ کر کے پاک صاف ہو جائیں گے - جہاں اس طرف اللھم اغفرلی کہا اس طرف صاف ہوئے وہ معترض بے چارہ تو اپنا سا منہ لے کر رہ گیا - وہ تو یہ سمجھے ہوئے تھا کہ پیر کی ایسی بات سن کو پیر سے الگ ہو جائیں گے - اس حکایت سے میرا یہ مقصود نہیں کہ جو پیر افعال شنیعہ کا مرتکب ہوتے ہوں ان سے دین کا تعلق رکھو اس کا لحاظ تو شرط اعظم ہے طریق کی اور اس حکایت میں جو جواب منقول ہے وہ محض تبکیت ( خاموش کرنا ) ہے معترض کے - ورنہ سیدھا جواب تو یہ تھا کہ اس تہمت کا کیا ثبوت پھر اصل مقصود یہ ہے کہ مصلح کے خفیف افعال پر بشرطیکہ وہ مباح کے درجہ تک ہوں یا احیانا کوئی بات تمہاری سمجھ میں نہ آئے اس سے بداعتقاد نہ ہو جائے بلکہ اپنے فہم اور عقل کا قصور سجھ کر خاموش ہو جائے خصوص جس شخص کی نظر چہار طرف ہو اور معترض کی نظر ایک ہی چیز پر ہے اسلیئے اس کے اقوال وافعال کو سمجھنا بڑے ہی دانش مند کا کام ہے ـ ملفوظ 438: معمولات براہ راست مجھ سے پوچھیں معمولات پوچھنے والے کے متعلق سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ان پوچھنے والے کو لکھ دیجئے کہ اس سے معمولات کے سوالات کا ذکر کیا تھا اس نے کہا کہ جو کچھ پوچھنا ہو مجھ سے بلا واسطہ پوچھو اور خود ذکر کرنیکی وجہ وہی لکھ دیجئے گا جو واقعی ہے یعنی ذکر کرنیکی وجہ یہ ہوئی کہ بعض معمولات تو مجھ کو معلوم تھے اور بعض کی مجھ کو خبر نہ تھی خود اسی سے پوچھنے سے معلوم ہو سکتے تھے اسلئے ذکر کیا گیا ـ اس سے انکو یہ بھی معلوم ہو جائیگا کہ اس کو علم ہو گیا اور ناگوار ہوا اور اب وہ ناگوار ہوگیا ( مراد سانپ ہے ) میرے معاملہ کو مجھ ہی سے معلوم کرنا چاہیئے دوسروں کو کیا خبر ! میں اپنی حالت کو خود جس طرح بتلا سکتا ہوں یا ادا کر سکتا ہوں دوسرا بے چارہ کیا بتا سکتا ہے اور کیا ادا کر سکتا ہے اس کو معلوم کب ہے - پھر فرمایا میرے معمولات ہی کیا جلوت کا حال تو سب کو معلوم ہے کہ لوگوں سے لڑتا بھڑتا رہتا ہوں اور خلوت میں میں رہتا ہی نہیں بس یہ معمولات ہیں -