ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
ملفوظ 502: طریق اصلاح کے استعمال کرنے میں مجبوری فرمایا کہ میں مجبور ہوں طرق اصلاح کے استعمال میں - اس کی مثال یوں سمجھئیے کہ قرات فی الصلوۃ کا لہجہ الگ ہوتا ہے اور تبلیغ تکبیر کا الگ امام قرات پڑھتا ہے نہایت نرم لہجہ میں اور مبلغ کہتا ہے بلند آواز سے اللہ اکبر - تو اس پر کوئی کہے کہ یہ شخص بہت ہی سخت مزاج ہے اتنی زور سے بولا باوجود اس کے وہ زور سے بھی بولا اور لہجہ بھی سخت ہے لیکن ظاہر ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس کو کوئی سخت نہ کہے گا کہ ضرورت ہے - اسی طرح تادیب کا لہجہ معمولی کلام سے الگ ہوتا ہے جس کی ضرورت ہے اور وہ ضرورت یہ ہے کہ اگر نرمی سے کہا جائے تو وہ تادیب ہی نہ رہے گی جیسے مکبر نرمی کا لہجہ اختیار کرے تو بہت سے مقتدی رکوع ہی سے رہ جائیں - اب تادیب کا مضمون ہاتھ جوڑ کر تھوڑا ہی کہا جاتا ہے وہ تو کہنے ہی کے طریق پر کہا جاتا ہے ایک مثال عرض کرتا ہوں بادشاہ کا پاسبان دربار میں بادشاہ کے سامنے بول بھی نہیں سکتا - اور بول ہی کیا سکتا بے چارے کا وجود ہی کیا ہے مگر جس وقت شب آتی ہے اس وقت اس کی آواز سنیے کس طرح نکلتی ہے ایک دفعہ کو تو محل میں بادشاہ بھی چونک اٹھے اسلئے کہ اس پر وہ مامور ہے اس کا فرض منصبی ہے بلکہ جس قدر بادشاہ سے قرب ہوگا اسی قدر اس کی آواز بلند ہو گی اور زور سے پکارے گا - تاکہ بادشاہ خوش ہو کہ اپنے فرض منصبی خوب ادا کر رہا ہے اگر اس وقت وہ نرم و پست لہجہ اختیار کریگا مجرم ہو گا - ملفوظ 503: عین مؤاخذہ کرتے وقت حضرت کی اپنی حالت فرمایا کہ میں بقسم عرض کرتا ہوں کہ عین مواخذہ اور تادیب کے وقت بھی یہ اعتقاد قلب میں مستحضر ہوتا ہے کہ شاید عنداللہ یہ مجھ سے زیادہ مقبول ہو اور یہ دونوں چیزیں یعنی تادیب استحضار مذکور ایک وقت میں جمع بھی ہو سکتی ہیں ـ اس کی ایک مثال عرض کیا کرتا ہوں وہ یہ کہ مثلا شہزاد سے کوئی جرم ہوا بادشاہ نے بھنگی کو حکم دیا کہ شہزادے کو بید لگاؤ وہ لگائے گا ضرور - کیونکہ بادشاہ کا حکم ہے اگر نہ لگائے گا تو خود کے لگنے کا خوف ہے مگر عین بید لگانے کے وقت بھی شہزادے سے اپنے کو افضل ہر گز نہ سمجھے گا