ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
بیان کی کہ حضرت حاجی صاحب کو اس شخص سے بہت محبت تھی وہ اس پر بہت عنایت کرتے تھے بس یہ کافی ہے اور دلیل کی ضرورت نہیں دیکھئے حضرت کے ساتھ کیسی محبت تھی کہ ایسے شخص کے ساتھ جس کی گمراہی پر دستخط بھی کریں ۔ یہ برتاؤ حضرت سے کبھی انہوں نے میرے بارہ میں کچھ سنا تھا حضرت کے ساتھ ان کو عشق تھا ۔ پھر فرمایا کہ وقت ایسا تھا کہ کانپور میں اہل اختلاف کا بھی یہ حال تھا ۔ اب کہاں یہ بات نفسا نفسی ہی رہ گئی ہے نہ جامع مسجد ہی میں کوئی رونق ہے نہ مدرسہ میں ۔ ملفوظ ( 451) نسبت باطنی مقصود ہے عرض کیا گیا کہ یہ جو فرمایا جاتا ہے کہ ثمرات کی طرف التفات نہ کرنا چاہیے نہ ان کی تمنا کرے کیا نسبت باطنی بھی انہیں ثمرات میں سے ہے اس کی بھی تمنا نہ کرے ۔ فرمایا کہ جی ہاں ثمرات سے مطلب مواجیدہ احوال ہیں نہ کہ نسبت ۔ اس طرح تو جنت بھی ثمرہ ہے خدا سے لقاء بھی ثمرہ ہے نسبت تو مقصود ہے اس کی ٹوہ میں اور فکر میں رہنا تو واجب ہے ۔ ایسی کیلئے تو یہ سب مشقتیں اٹھائی جاتی ہیں ۔ مواجیدہ واحوال یعنی ذوق وشوق یکسوئی وغیرہ ثمرات غیر مقصود ہیں ۔ انہیں کی تمنا نہ کرے ۔ عرض کیا گیا کہ یکسوئی نسبت میں بھی جاتی ہے فرمایا کہ جو یکسوئی نسبت میں ہوتی ہے اس کے یہ معنی نہیں کہ کوئی خطرہ ہی نہ آئے ۔ بلکہ یہ معنی ہیں کہ غیر حق پر نظر نہ ہو۔ صحابہ اہل نسبت تھے لیکن وساوس آتے تھے ۔ اہل نسبت کو یہ ضروری نہیں کہ کوئی خطرہ یا وساوس نہ آئیں ۔ ملفوظ ( 452) قرض کے بارے میں احتیاط ایک صاحب نے حضرت کو ایک شخص سے بطور قرض کے روپیہ بھجوانے کی سفارش کرنے کو کہا اس شخص سے تعلق خادمیت ہے حضرت نے حسب معمول انکار لکھ بھیجا ۔ پھر فرمایا کہ حضرت میں تو یہاں تک احتیاط کرتا ہوں کہ اسیے شخص سے میں کبھی قرض نہیں لیتا جس کی امانت میرے پاس ہو یا مجھے علم ہو کہ اس کے پاس روپیہ آنے والا ہے اور اسے بھی یہ علم ہے ۔ ہمیشہ ایسے شخص سے لیتا ہوں جو انکار کرسکے ۔ اور کسی قسم کا اس پر اثر دباؤ نہ ہو۔ ان امور کا ضرور لحاظ چاہیے جو اپنا لحاظ کرے کیا اس کا یہی حق ہے کہ اس سے منتفع ہوا کرے ۔ طالب نفع تو ایسے شخص سے ہونا چاہیے جو اگر چاہے تو صاف آزادی سے انکار کرسکے ۔ اور جو انکار پر بوجہ عقیدت یا لحاظ دباؤ کے قادر نہ ہو اس سے کبھی نہیں چاہیے ۔