ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
ملفوظ (402) اپنی مصلحت کی رعایت فرمایا کہ حضرت گنگوہی سے میں تین چار ہی باتیں سلوک کے متعلق پوچھی ہیں بفضلہ تعالیٰ زیادہ حاجت نہیں ہوئی ۔ ان میں سے ایک یہ تھی کہ ایک زمانہ میں میرا جی تنہائی کو بہت چاہتا تھا جی میں آیا کہ خلوت میں رہا کروں لیکن اس میں لوگوں کی دل شکنی کا خیال ہوتا تھا حضرت مولانا نے فرمایا کہ اپنی مصلحت کو دیکھ لو اور کسی خیال نہ کرو سب کو جھاڑو بھی مارو اور یہ اس طرح سے فرمایا کہ گویا خود پر گزری ہو۔ ایک بار فرمایا کہ حضرت گنگوہی کا یہ قول مجھے بہت پسند ہے کیونکہ میرے مزاق کے موافق ہے فرمایا کرتے تھے کہ تحمل سے زیادہ کبھی اپنے ذمہ کام نہ لے ۔ چنانچہ ایک صاحب نے مولانا کے کسی مہمان سے بستر کے لئے پوچھا تو معلوم ہونے کے بعد فرمایا کہ اگر اس کے پاس نہ ہوتا تو تم کہاں سے دیتے ۔ اور اگر ایک دو بستر کہیں سے لا کر دے بھی دیتے تو اگر بہت سے مہمان آئے اور کسی کے پاس بھی بسترا نہ ہوا تو سب کے لئے کہاں سے لاؤ گے ۔ خبردار ! جو کسی سے بستر کے لیے پوچھا ۔ میں کہاں سے بستروں کا انتظام کروں گا جو آئے اپنے ساتھ بسترلاوے ۔ اسی طرح سناگیا ہے کہ ایک جاڑے کے دنوں میں حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نے اپنی رضائی تو کسی مہمان کو دیدی کودے دی پھر مولانا گنگوہی سے ان کی اپنے لئے رضائی مانگی تو فرمایا کہ اپنی رضائی کیوں دوسروں کو دے دی ۔ میں تو اپنی رضائی نہیں دیتا ہے جب انہوں نے کہا حضرت میں رات بھر جاڑے مرجاؤں گا ۔ تب دو شرطوں سے دی ایک کہ تہجد کے وقت مجھے واپس کردینا کیونکہ لحاف اوڑھ کر مجھ سے نہ اٹھا جائے گا اور دوسرے کسی اور شخص کو مت دینا ۔ تاکہ کسی کی جوں نہ چڑھ جائے ۔ ملفوظ ( 403) اپنی مصلحت کی رعایت فرمایا کہ آدمی سب کو خوش رکھ نہیں سکتا جب ہرحال میں اس پربرائی آئی ہے پھر اپنی مصلحت کو کیوں فوت کرے ۔ جس کام میں اپنی مصلحت اور راحت دیکھے بشرط اذن شرعی وہی کرے ۔ کسی کی بھلائی برائی کا خیال نہ کرے ۔ ملفوظ ( 404 ) از خود رسید طلب کرنا بے اعتمادی ہے