ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
( ملفوظ 67 ) فلسفہ و معقولات کی عجیب مثال اپنے معمولات کے متعلق فرمایا کہ بضرورت جیسا جیسا تجربہ ہوتا گیا قواعد وضوابط تجویز کرتا گیا ۔ اکثر سلطنت کا قانون بھی جبھی سخت بنایا جاتا ہے جب رعایا بد عنوانیاں کرتی ہیں حضرت مولانا گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ نے مدرسہ دیوبند کے نصاب سے فلسفہ کی بعض کتابوں کو نام کی تعین کیساتھ خارج کرا دیا تھا کیونکہ حضرت ان کو مضردین سمجھتے تھے کسی نے حضرت مولانا محمد یعقوب رحمتہ اللہ علیہ سے اس کی شکایت کی کہ مولانا نے ان کتابوں کو حرام کردیا تو مولانا نے فرمایا کہ حضرت نے حرام نہیں بلکہ تمہاری طبیعتوں نے حرام کیا ہے خود تمہاری طبیعتوں ہی میں کجی ہے اس لئے یہ کتابیں مضردین ہوجاتی ہیں ورنہ اگر طبیعت سلیم ہو تو یہ کتابیں بھی بجائے مضردین ہونے کے معین دین ہو جائیں پھر کج طبعی کے متعلق یہ واقعہ بیان کیا کہ ایک معقولی طالب علم سے یہاں کے طلبہ نے معقول کے اس مسئلہ کے متعلق کہ الکل اعظم من الجزو یہ اشکال پیش کیا کہ مور کی دم جو کہ اس کا جزو ہے وہ خود مور سے بھی بڑی ہوتی ہے تو یہ کلیہ کہاں صحیح رہا تو اس نے جواب دیا کہ مامن عام الا وقد خص منھ البعض اھ پھر فرمایا کہ یہ تو حالت مہم کی ہے پھر ایسے شخص کیلئے بھلا فلسفہ کیوں نہ مضردین ہو کیونکہ وہ تو کچھ سے کچھ سمجھ لے گا ایسے کوڑہ مغزوں کے لئے تو بیشک فلسفہ پڑھنا جائز نہیں باقی ہم تو جیسا بخاری کے مطالعہ میں اجر سمجھتے ہیں میر زاہد اور امور عامہ میں بھی ویسا ہی اضر سمجھتے ہیں کیونکہ اس کا شغل بھی اللہ کے واسطے ہے اور اس کا بھی ۔ یہ بات بڑی قوت سے فرمائی اور واقعی موٹی بات ہے دیکھئے باغ کی رونق کے لئے جیسا کہ پھلوں کے درخت لگانا مقبول خدمت ہے ویسے ہی یہ بھی مقبول خدمت ہے کہ اس کی حفاظت کے لئے کانٹے جمع کر کے باغ کے چاروں طرف باڑہ لگا دے تاکہ جانور آآکر اس کو ویران نہ کردیں ۔ بس فلسفہ و معقولات کی یہی مثال ہے کہ وہ کانٹوں کی باڑہ ہے